پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا
کوئی اِدھر رہ گیا، کوئی اُدھر رہ گیا
کتنی ہی صبحیں کبھی میرے گریباں میں تھیں
آنکھ میں اب تو فقط خوابِ سحر رہ گیا
کچھ بھی نہیں رہ گیا جسم میں دل کے سوا
راکھ کے اِس ڈھیر میں ایک شرر رہ گیا
جس کے در و بست پر میں نے توجہ نہ دی
آخر اُسی نقش کا مجھ میں اثر رہ گیا
وقت کی لہر اس طرح سب کو بہا لے گئی
اب یہ پتہ ہی نہیں، کون کدھر رہ گیا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...