راحت اندوری

اجنبیت کی بستی میں بقا کی تمنا لیے، شاعر نے دشمنوں کے درمیان دل تھام کر قدم رکھا ہے۔
جہاں ہمدردوں کی گنتی انگلیوں پر ہو، وہاں ہر سانس بھی گویا جرأتِ اظہار کا استعارہ بن جاتی ہے۔

Read More

ادا جعفری

اس شعر میں ادا جعفری نے ہوائے مست و مدہوش کو اس دلآویز انداز سے مصور کیا ہے گویا فطرت خود ساغر و مینا تھامے، کیف و نشاط کا جام لُٹا رہی ہو۔
یہ صرف بادِ نسیم کی خرامی نہیں، بلکہ روحِ کائنات کی نازنیں سرشاری ہے جو اپنے جلو میں وجدانی مسرّت، جمالی لطافت، اور حیات آفرینی لیے بہہ رہی ہے۔
شاعرہ کی نگاہِ حسّاس نے موسم کے معمولی جھونکوں کو عالمِ وجدان کی شرابِ ناب میں بدل کر پیش کیا ہے، جہاں فطرت کی ہر سانس گویا رقصِ لطافت بن گئی ہو۔
یہ شعر محض موسم کی منظرکشی نہیں بلکہ باطنی سرمستی اور نسائی شعورِ جمال کا ایک لطیف اظہاریہ ہے، جو قاری کو کیف و سکوت کے حسین کنارے پر لا کھڑا کرتا ہے۔
ادا جعفری کی شعری حسیّت یہاں نازک خیالی، رمز و کنایہ، اور باطن افروزی کے اعلیٰ نمونے کے طور پر جلوہ گر ہے، جہاں ہر لفظ مچلتی خوشبو کی مانند قاری کی روح پر دستک دیتا ہے۔

Read More

ادا جعفری

یہ شعر ادا جعفری کی گہری داخلی بصیرت، نسائی وقار، اور شعری نفاست کا آئینہ دار ہے۔ شاعرہ نے یہاں محبت کے غیر اعلانیہ اظہار اور باطن کے آشوب کو چشمِ نم یعنی اشک آلود آنکھ کے استعارے میں سمو کر دل کی نرمی کو وقار کا پیرایہ عطا کیا ہے۔

Read More

نجیب احمد

مری نمود کسی جسم کی تلاش میں ہے میں روشنی ہوں اندھیروں میں چل رہا ہوں ابھی

Read More