شہزاد احمد

تمام عمر ہوا پھونکتے ہوئے گزری رہے زمیں پہ مگر خاک کا مزا نہ لیا

Read More

بشیر احمد حبیب ۔۔۔۔ ہم پاس تھے مگر کبھی باہم نہیں ہوئے

Read More

رانا سعید دوشی ۔۔۔ آنکھیں ہونے کو ہیں بے جان، مجھے جانے دے

Read More

نبیل احمد نبیل ۔۔۔ دو غزلیں

Read More

رحیم احسن ۔۔۔ حضرت سید محمد وجیہ السیما عرفانی ؒ کی غزل گوئی

حضرت سید محمد وجیہ السیما عرفانی ؒ کی غزل گوئی شاعری ہماری زندگی کے رویوں کی عکاس ہے اس سے معاشرے اوراس کے باسیوں کے شب و روز کے موزوں یا ناموزوں ہونے کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ شاعری جہاں خوشی کی کیفیت سے دو چار کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ وہ حزن و ملال بھی پید ا کرنے کا باعث ہے ۔ شاعری نے جہاں انسانی ذہن اور شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہاں اس نے غزل کی شکل میں…

Read More

مہتاب رائے تاباں

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

Read More

عبدالرحمن مومن ۔۔۔ میں نے جب خواب نہیں دیکھا تھا

میں نے جب خواب نہیں دیکھا تھا تجھ کو بیتاب نہیں دیکھا تھا اس نے سیماب کہا تھا مجھ کو میں نے سیماب نہیں دیکھا تھا ہجر کا باب ہی کافی تھا ہمیں وصل کا باب نہیں دیکھا تھا چاند میں تو نظر آیا تھا مجھے میں نے مہتاب نہیں دیکھا تھا وہ جو نایاب ہوا جاتا ہے اس کو کم یاب نہیں دیکھا تھا ایک مچھلی ہی نظر آئی مجھے میں نے تالاب نہیں دیکھا تھا

Read More

شاداب الفت ۔۔۔ ہماری آنکھ نے یوں بھی عذاب دیکھا تھا

ہماری آنکھ نے یوں بھی عذاب دیکھا تھا کسی کی آنکھ سے بہتا جواب دیکھا تھا لبوں سے آپ کے گر کر بکھر گئی ہوگی ہر ایک شے پہ جو رنگِ شراب دیکھا تھا ہمارے لمس نے جادو تمہارے رخ پہ کیا تبھی تو شیشے میں تم نے گلاب دیکھا تھا قریب آپ کے میں بھی کھڑا ہوا تھا کل وہی جو خاک میں لپٹا جناب دیکھا تھا

Read More

رفیق راز ۔۔۔ چاندنی رات میں اک بار اسے دیکھا تھا

چاندنی رات میں اک بار اسے دیکھا تھا چاند سے بر سرِ پیکار اسے دیکھا تھا مثلِ خورشید نمودار وہ اب تک نہ ہوا آخری بار سرِ غار اسے دیکھا تھا میں بھلا کیسے بیاں کرتا سراپا اس کا شبِ یلدا پسِ دیوار اسے دیکھا تھا دل میں اتری ہی نہ تھی روشنی اس منظر کی اولیں بار تو بے کار اسے دیکھا تھا لوگ کیوں کوہ و بیاباں میں اسے ڈھونڈتے ہیں میں نے تو بر سرِ بازار اسے دیکھا تھا اس نے کیا رات کو دیکھا تھا یہ…

Read More

عابد ملک ۔۔۔ میں نے لوگوں کو نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا

میں نے لوگوں کو نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا صرف اس رات اندھیروں نے مجھے دیکھا تھا پوچھتا پھرتا ہوں میں اپنا پتہ جنگل سے آخری بار درختوں نے مجھے دیکھا تھا یوں ہی ان آنکھوں میں رہتی نہیں صورت میری آخر اس شخص کے خوابوں نے مجھے دیکھا تھا اس لئے کچھ بھی سلیقے سے نہیں کر پاتا گھر میں بکھری ہوئی چیزوں نے مجھے دیکھا تھا ڈوبتے وقت بچانے نہیں آئے، لیکن یہی کافی ہے کہ اپنوں نے مجھے دیکھا تھا

Read More