قتیل شفائی ۔۔۔ حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں

حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہیں

Read More

مرزا غالب ۔۔۔ کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں دل میں آ جاے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں…

Read More

عبدالحمید عدم

مفلسوں کو امیر کہتے ہیں آبِ سادہ کو شیر کہتے ہیں اے خدا! تیرے باخرد بندے بزدلی کو ضمیر کہتے ہیں

Read More

عزیز فیصل

کودے ہیں اُس کے صحن میں دو چار شیر دل ہم فیس بک کی وال سے آگے نہیں گئے

Read More

ہاجر دہلوی ۔۔۔۔ آپ جب سامنے بیٹھے ہیں تو حال اچھا ہے  

سوچتا ہوں کبھی حوروں کا خیال اچھا ہے کبھی کہتا ہوں کہ اس بت کا جمال اچھا ہے مجھ سے کہتے ہیں کہو عشق میں حال اچھا ہے چھیڑ اچھی ہے یہ اندازِ سوال اچھا ہے نہ ادائیں تری اچھی نہ جمال اچھا ہے اصل میں چاہنے والے کا خیال اچھا ہے دیکھ کر شکل وہ آئینہ میں اپنی بولے کون کہتا ہے کہ حوروں کا جمال اچھا ہے جو ہنر کام نہ آئے تو ہنر پھر کیسا کام جو وقت پر آئے وہ کمال اچھا ہے وہ جوانی وہ…

Read More

نظر لکھنوی ۔۔۔ موسمِ گل تو یہ بس سال بہ سال اچھا ہے ۔ (دو غزلہ)  

فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے آئے گر حسنِ خیال اس کو سنبھال اچھا ہے میرے احساسِ خودی پر نہ کوئی زد آئے تو جو دے دے مجھے بے حرف سوال اچھا ہے آپ مانیں نہ برا گر تو کہوں اے ناصح صاحبِ قال سے تو صاحب حال اچھا ہے بے خیالی نہ رہے خام خیالی سے بچو دل میں بس جائے جو ان کا ہی خیال اچھا ہے تیرے رخ پر ہو مسرت تو مرا دل مسرور تیرے چہرے پہ نہ ہو گردِ ملال اچھا…

Read More

امیر مینائی ۔۔۔۔ اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے

اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے آ گیا اس کا تصور تو پکارا یہ شوق دل میں جم جائے الٰہی یہ خیال اچھا ہے آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے برق اگر…

Read More

جلیل مانک پوری … نہ خوشی اچھی ہے اے دل نہ ملال اچھا ہے

نہ خوشی اچھی ہے‘ اے دل! نہ ملال اچھا ہے یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے دلِ بیتاب کو پہلو میں مچلتے کیا دیر سن لے اتنا کسی کافر کا جمال اچھا ہے بات الٹی وہ سمجھتے ہیں جو کچھ کہتا ہوں اب کے پوچھا تو یہ کہہ دوں گا کہ حال اچھا ہے صحبت آئینے سے بچپن میں خدا خیر کرے وہ ابھی سے کہیں سمجھیں نہ جمال اچھا ہے مشتری دل کا یہ کہہ کہہ کے بنایا ان کو چیز انوکھی ہے‘ نئی جنس ہے…

Read More

تلوک چند محروم ۔۔۔ ان کے آنے سے جو بیمار کا حال اچھا ہے

طائرِ دل کے لیے زلف کا جال اچھا ہے حیلہ سازی کے لیے دانۂ خال اچھا ہے دل کے طالب نظر آتے ہیں حسیں ہر جانب اس کے لاکھوں ہیں خریدار کہ مال اچھا ہے تاب نظارہ نہیں گو مجھے خود بھی‘ لیکن رشک کہتا ہے کہ ایسا ہی جمال اچھا ہے دل میں کہتے ہیں کہ اے کاش نہ آئے ہوتے ان کے آنے سے جو بیمار کا حال اچھا ہے مطمئن بیٹھ نہ اے راہروِ راہِ عروج ترا رہبر ہے اگر خوفِ زوال اچھا ہے نہ رہی بے…

Read More

احمد فراز

میں نے پوچھا تھا کہ آخر یہ تغافل کب تک مسکراتے ہوئے بولے کہ سوال اچھا ہے

Read More