صابر ظفر ۔۔۔ اک عمر جو ہم نے خون تھوکا

اک عمر جو ہم نے خون تھوکا دل نرم نہیں ہوا کسو کا جب موت کی منتظر ہوں سانسیں دورانیہ ہے وہ کرفیو کا بارود ہے اس قدر سرِ خاک امکان ہی چھن گیا نمو کا بہتر ہے کہ بے طلب ہی جی لو یہ عہد نہیں ہے آرزو کا ہستی ہے ہماری، یاد جس کی وہ ہم کو بھلا چکا کبھو کا حد سے جو گزر رہے ہیں ہم تم حاصل ہے کوئی تو جستجو کا اب تک ہے وہی زبان بندی عالم ہے ہنوز کوئی ہُو کا ڈوبے…

Read More