وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا گھر میں کوئی آئے کہ نہ آئے ایک دیا سا جلتا تھا یاد آتی ہیں وہ شامیں جب رسم و راہ کسی سے تھی ہم بے چین سے ہونے لگتے جوں جوں یہ دن ڈھلتا تھا اُن گلیوں میں اب سنتے ہیں راتیں بھی سو جاتی ہیں جن گلیوں میں ہم پھرتے تھے جہاں وہ چاند نکلتا تھا وہ مانوس سلونے چہرے جانے اب کس حال میں ہیں جن کو دیکھ کے خاک کا ذرہ ذرہ آنکھیں مَلتا…
Read MoreTag: رحمٰن
اپنے بچے کے نام ۔۔۔۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی
اپنے بچے کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے مرے سِنّ و سال کے حاصل! میرے آنگن کے نو دمیدہ گلاب میرے معصوم خواب کے ہم شکل میری مریم کے سایۂ شاداب صبح تخلیق کا سلام تجھے زندگی تجھ کو کہتی ہے آداب اے مقدّس زمیں کے شعلۂ نو! تو فروزاں ہو اُن فضاؤں میں میرے سینے کی جو امانت ہیں جو مری نارسا دعاؤں میں اس طرح مسکراتی ہیں جیسے نغمگی دور کی صداؤں میں مجھ کو اجداد سے وراثت میں وہ خرابے ملے کہ جن میں رہا عمر بھر پائمال و…
Read Moreسوداگر ۔۔۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی
سوداگر ۔۔۔۔۔۔ لو گجر بج گیا صبح ہونے کو ہے دن نکلتے ہی اب میں چلا جاؤں گا اجنبی شاہراہوں پہ پھر کاسۂ چشم لے لے کے ایک ایک چہرہ تکوں گا دفتروں، کارخانوں میں، تعلیم گاہوں میں جا کر اپنی قیمت لگانے کی کوشش کروں گا میری آرامِ جاں! مجھ کو اک بار پھر دیکھ لو آج کی شام لوٹوں گا جب بیچ کر اپنے شفّاف دل کا لہو اپنی جھولی میں چاندی کے ٹکڑے لیے تم بھی مجھ کو نہ پہچان پائیں تو پھر میں کہاں جاؤں گا…
Read Moreرحمان حفیظ ۔۔۔۔۔ اْڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک
اُڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک یہ اور خاک ہے، اک دشتِ بے کنار کی خاک! ڈرا رہے ہو سفر کی صعوبتوں سے ہمیں! تمھارے منہ میں بھی خاک، اور رہ گزار کی خاک! یہ میں نہیں ہوں تو پھرکس کی آمد آمد ہے! خوشی سے ناچتی پھرتی ہے رہگزار کی خاک ہمیں بھی ایک ہی صحرا دیا گیا تھا، مگر اُڑا کے آئے ہیں وحشت میں تین چار کی خاک ہمیں مقیم ہوئے مدتیں ہوئیں، لیکن سَروں سے اب بھی نکلتی ہے رَہ گزار کی خاک…
Read Moreحبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کرینگے
خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کرینگے ہم اپنے کمرے کے منظروں پر سکوت طاری نہیں کرینگے پڑی ضرورت تو اپنے سر کو اتار پھینکیں گے راستے میں سفر میں شانوں کے بوجھ کو ہم زیادہ بھاری نہیں کرینگے اب ایک ماتم ہے اِس کنارے اور ایک ماتم ہے اُس کنارے اگرچہ طے یہ ہوا تھا بچھڑے تو آہ و زاری نہیں کرینگے سخن سرائی میں اپنے پُرکھوں کی ہم روایت کے ہیں محافظ سنیں گے طعنے ہر اک کے لیکن زباں کو آری نہیں کرینگے ہماری خلوت…
Read Moreقاضی حبیب الرحمن
چمن چمن ، ترے جلووں کے رنگ بکھرے ہیں صدف صدف ، گہر افشاں ، ادائے تازہ ہے
Read Moreکاغذی پیرہن ۔۔۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی
کاغذی پیرہن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے موسم بدل رہا ہے اُٹھوں اور اب اُٹھ کے کیوں نہ اس گھر کے سارے دروازے کھول ہی دوں مرے دریچوں پہ جانے کب سے دبیز پردے لٹک رہے ہیں میں کیوں نہ ان کو الگ ہی کر دوں مرا یہ تاریک و سرد کمرہ بہت دنوں سے سنہری دھوپ اور نئی ہوا کو ترس رہا ہے جگہ جگہ جیسے اس کی دیوار کی سپیدی اکھڑ گئی ہے ہر ایک کونے میں کتنے جالے لگے ہوئے ہیں مرے عزیزوں،…
Read Moreمجھے درکار ہیں آنکھیں ۔۔۔۔۔ قاضی حبیب الرحمٰن
مجھے درکار ہیں آنکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اک اَن کہا منظر سُنانا ہے مجھے اک اَن کہا منظر سُنانے کے لیے درکار ہیں آنکھیں نہیں جو دیکھنے کی آرزو رکھتے نہیں جو دیکھتے اُن کے لیے بیکار ہیں آنکھیں مجھے درکار ہیں آنکھیں مجھے اک اَن کہا منظر سُنانا ہے
Read Moreتسلسل ۔۔۔۔۔ قاضی حبیب الرحمٰن
تسلسل ۔۔۔۔۔۔ نشّۂ ہرزہ بیانی کب تلک یادِ عہدِ آنجہانی کب تلک اب ہمارا ذکر ہونا چاہیے لیلیٰ مجنوں کی کہانی کب تلک
Read Moreایک صدیوں پُرانی خواہش ….. قاضی حبیب الرحمٰن
ایک صدیوں پُرانی خواہش ……………………… موت بھی ہے زندگی کی اک اَدا زندگی کے ہر طرف ہے زندگی تیرے گھر اُنسٹھ برس سے ہوں مُقیم ایک دن مجھ سے بھی مِل، اے زندگی!
Read More