کیا تھا استخارہ، سو گیا تھا ۔۔۔ لیاقت علی عاصم

کیا تھا استخارہ، سو گیا تھا کنارے پر مَیں پیاسا سو گیا تھا مری آنکھوں میں تھا وہ خوابِ راحت مرے قدموں میں رستا سو گیا تھا چٹانوں پر گزاری رات مَیں نے مری کشتی میں دریا سو گیا تھا تھکن کس کی تھی، کس کو نیند آئی مرے سینے پہ صحرا سو گیا تھا مَیں اُس دن فرش پر سویا سکوں سے مرے بستر پہ بیٹا سو گیا تھا یہ بستی رات بھر جاگی تھی اُس دن کہانی کہنے والا سو گیا تھا سبھی کے چاند تھے بے دار…

Read More