علامہ محمد اقبال

نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست سوے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را ترجمہ: نغمہ کہاں اور میں کہاں، سازِ سخن تو ایک بہانہ ہے (ورنہ میرا مقصد تو) بے مہار اونٹنی کو قطار کی طرف کھینچنا ہے۔

Read More

ہر چیز ہے محو خودنمائی ۔۔۔ علامہ محمد اقبال

ہر چیز ہے محوِ خودنمائی ہر ذرّہ شہید ِکبریائی بے ذوقِ نمود زندگی، موت تعمیرِ خودی میں ہے خدائی رائی، زورِ خودی سے پربت پربت، ضعفِ خودی سے رائی تارے آوارہ و کم آمیز تقدیر ِوجود ہے جدائی یہ پچھلے پہر کا زرد رُو چاند بے راز و نیازِ آشنائی تیری قندیل ہے ترا دِل تو آپ ہے اپنی روشنائی اک تُو ہے کہ حق ہے اِس جہاں میں باقی ہے نمودِ سیمیائی ہیں عقدہ کشا یہ خارِ صحرا کم کر گلۂ برہنہ پائی

Read More

مذہب ۔۔۔ علامہ محمد اقبال

مذہب ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نَسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری دامنِ دیں ہاتھ سے چهوٹا تو جمعیّت کہاں اور جمعیّت ہوئی رخصت تو ملّت بهی گئی

Read More