سلام بحضور امامِ عالی مقام ؓ ……. حامد یزدانی

سرِ دوام یہ تحریر ہے ، نہیں ہے کیا؟ غمِ حُسین ابد گِیر  ہے ، نہیں ہے کیا؟ کہ زخم زخم اِسی روشنی سے چمکے گا کہ بُوند بُوند میں تنویر ہے، نہیں ہے کیا؟ ترازُو پیاس میں اِک تِیر تھا، نہیں تھا کیا ؟ ترازُو پیاس میں اِک تِیر ہے، نہیں ہے کیا؟ جہاں جہاں بھی رِدا ہے عَلَم بناتی ہُوئی وہاں وہاں مِرا شبیر ہے ، نہیں ہے کیا؟ خراجِ اشک ادا خامشی سے کرتے ہیں کہ آہِ ضبط بھی تشہیر ہے، نہیں ہے کیا؟ کہِیں سے پھر…

Read More

سلام بحضور امام عالی مقام…… نصیر ترابی

یہ ہے مجلسِ شہِ عاشقاں کوئی نقدِ جاں ہو تو لے کے آ یہاں چشمِ تر کا رواج ہے ، دلِ خونچکاں ہو تو لے کے آ یہ فضا ہے عنبر و عود کی، یہ محل ہے وردِ درود کا یہ نمازِ عشق کا وقت ہے، کوئی خوش اذاں ہو تو لے کے آ یہ جو اک عزا کا شعار ہے، یہ عجب دعا کا حصار ہے کسی نارسا کو تلاش کر، کوئی بے اماں ہو تو لے کے آ یہ نشہ ہے اہلِ دلیل کا ، یہ عَلم ہے…

Read More

سلام…. توقیر عباس

روشن اس ایک فکر سے یہ کائنات ہے دل میں غمِ حسین نہیں ہے تو رات ہے کرتا ہے فیض یاب مجھے دشتِ کربلا باقی ہر ایک چیز تو نہرِ فرات ہے ایسے میں ان کے ذکر سے ملتی ہے زندگی جب چار سو اڑی ہوئی گردِ ممات ہے اسمِ یذید ہے کسی نقلی دوا کا نام ذکرِ حسین اصلِ حیات و نبات ہے

Read More

بصیرت (مرثیہ) ….. خالد علیم

ہرگز نہیں گلشنِ صبا میرے لیے چلتی ہے سموم کی ہوا میرے لیے میں ایک مسلماں ہوں تو ہوگی تیّار ہر دور میں ایک کربلا میرے لیے ۔۔۔۔۔۔۔ اے میرے جاں فگار دل! اے بے قرار دِل! ہر لحظہ خود نمائی ٔدُنیا سے منفعِل تجھ سے تو خوش نصیب ہے پتھر کی ایک سِل اُٹھی ہے کس خمیرسے تیری یہ آب و گِل دھڑکن ترے وجود کی دم ساز ہے تجھے ماتم لہو کا حلقۂ آواز ہے تجھے جب جانتا ہے عالمِ ہستی کو تو سراب یوںہی نہیں ہے یہ…

Read More

نذرانہ سلام بہ حضور شہیدانِ کربلا…. باقی احمد پوری

تہِ ریگ ِ رواں پانی ہے شاید ذرا ٹھہرو یہاں پانی ہے شاید فرات ِ وقت پر پہرے لگے ہیں لہو سے بھی گراں پانی ہے شاید کبھی تھا تخت اس کا پانیوں پر اب اس کا آسماں پانی ہے شاید خدا کا رازداں کوئی نہیں ہے خدا کا رازداں پانی ہے شاید جو سبط ِ ساقی ِ کوثر ہے دیکھو اسی کا امتحاں پانی ہے شاید یہ آتش میں گھرے خیمے، یہ آہیں سکینہ کی فغاں پانی ہے شاید ستم کی داستاں یہ بھی سناتا کہے کیا بے زباں…

Read More

جلیل عالی

خونِ شبیر سے روشن ہیں زمانوں کے چراغ شِمر نسلوں کی ملامت کا دھواں لایا ہے

Read More

سلام….. نجیب احمد

سرِ نیزہ جو روشن ہو گیا ہے رسولِ پاک کے گھر کا دیا ہے اندھیری رات کی پوروں میں جگنو بہ اندازِ شرر جل بجھ رہا ہے بچھی تھی سیج تیروں کی، اُسی پر شہِ معصوم پیاسا سو گیا ہے ترے گھر میں جگہ کیا پائے دنیا ترا خیمہ نہیں، شہرِ وفا ہے اعزادارو! یہاں چلتے ہیں آنسو خریدارو! یہ بازارِ رضا ہے ہوائیں سر پٹخ کر رہ گئی ہیں چراغِ استقامت جل رہا ہے نجیب! اک شخص کی تشنہ لبی سے ابھی تک نم ورق تاریخ کا ہے (نجیب…

Read More