ضیا جالندھری ۔۔۔ ملاقات

ملاقات ۔۔۔۔۔ پھول پھول میں اُمنگ رنگ بن کے جی اُٹھی خوشبوئوں کی لہر لہر بادلوں کے سائے میں راگ چھیڑتی اُٹھی راگنی کی آنچ شاخ شاخ میں رواں ہوئی راگنی کی آنچ نرم کونپلوں کے روپ میں ڈھل کے پھر عیاں ہوئی بڑھتی بیل پھیلتے درخت سے لپٹ گئی اور گرم بازوئوں کے حلقے تنگ ہو گئے زندگی سمٹ گئی (۲۰ نومبر ۱۹۴۴ء) …………………………… مجموعہ کلام: سرِ شام ناشر: نیا ادارہ، لاہور بار دوم: ۱۹۶۸ء

Read More

میرے لیے ۔۔۔ ضیاء الحسن

میرے لیے ۔۔۔۔۔۔۔ اے شریکِ نفس! مَیں تری سانس کی خوشبوئوں میں بسا زندگی کے کٹھن مرحلے طے کیے جا رہا ہوں اتنا کافی ہے، تُو زندگی کے مسائل زدہ بحر میں اک جزیرہ ہے سرسبز و شاداب میرے لیے زندگی کو حسیں سے حسیں تر کیے جا رہی ہے تیرے پھولوں پھلوں پر مری دسترس تُو مرے ذائقوں کی امیں یہ جزیرہ مرا، صرف میرے لیے ہے مرے واسطے زندگی کی اچھوتی مسرت ہے جس کے لیے مَیں ترے زیرِ احسان ہوں مَیں ترا ہوں، ترے واسطے ہوں ترے…

Read More