اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا

دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

دل تاجگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا

جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی
دل بھی اگر گیا، تو وہی دل کا درد تھا

احباب چارہ سازئ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال، ببایاں نورد تھا

یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Related posts

Leave a Comment