جو کل نہیں، آج کیا کریں گے
عالم کا خراج کیا کریں گے
دنیا سے شہیدوں کو علاقہ!
سر ہی نہیں، تاج کیا کریں گے
اُن آنکھوں سے ہو اُمید کیوں کر
بیمار، علاج کیا کریں گے
ہم خاکِ زمیں پہ سونے والے
شاہوں سے مزاج کیا کریں گے
رہنے دو ہماری عادتوں کو
ہم رسم و رواج کیا کریں گے
جمیعتِ دل ہے خوب، لیکن
آشفتہ مزاج کیا کریں گے
دو روز کی زندگی ہے ثاقب
ہم کشور و تاج کیا کریں گے