حامد یزدانی ۔۔۔ ہیں کہیں دُور جُھمبر کی لے کاریاں، کچے صحنوں سے اُٹھتا دھواں ہے کہیں

ہیں کہیں دُور جُھمبر کی لے کاریاں، کچے صحنوں سے اُٹھتا دھواں ہے کہیں
گاؤں کی شام ایسی مصورنےبھی پھر کسی کینوس پراتاری نہیں

دل کے لاہورکی بُرجیاں، دیکھتے دیکھتے، زیرِ آبِ خیال آگئیں
اب کے آنکھوں کا راوی چڑھا تو پس انداز یادوں کی کتنی ہی نظمیں بہیں

کیسے کیسے نہ موسم مِرے گھر کی چھت سے گزر کر گماں ہو چکے، دوستو!
دوپہر اک دسمبر کی، ٹھہری ہوئی آج بھی گیلی دیوار پر ہے وہیں

صبح کی پھیکی پھیکی سی مرطوب حدّت، بدن سے چپکنے لگی ہم نشیں
ایسا لگتا ہے گہری اداسی تھکن اوڑھ کر اب تلک سو رہی ہے یہیں

رنگ اُڑتا گیا جون کی تمتماتی ہوئی خود نما نرگسی دھوپ کا
نرم اُجلی فلالین سی تتلیاں ایک پیلے دوپٹے پہ بیٹھی رہیں

Related posts

Leave a Comment