ہمیں بھی کام بہت ہے خزانے سے اُس کے
ذرا یہ لوگ تو اٹھیں سرہانے سے اُس کے
یہی نہ ہو کہ توجہ ہٹا لے وہ اپنی
زیادہ دیر نہ بچنا نشانے سے اُس کے
وہ مجھ سے تازہ محبت پہ راضی ہے، لیکن
اصول اب بھی وہی ہیں پرانے سے اُس کے
وہ تیر اتنی رعایت کبھی نہیں دیتا
یہ زخم لگتا نہیں ہے گھرانے سے اُس کے
وہ چڑھ رہا تھا جدائی کی سیڑھیاں آفاق
سرک رہا تھا مرا ہاتھ شانے سے اُس کے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
ادا پریوں کی، صورت حور کی، آنکھیں غزالوں کی غرض مانگے کی ہر اک چیز ہے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے
وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے وہ... -
محمد علوی ۔۔۔ ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں مگر پہچاننے والے کہاں ہیں کہیں پر سلسلہ ہے کوٹھیوں...