حسن ایسا کہ جو سب کو نظرآنے کا نہیں
عشق اِتنا کہ مِرے دل میں سمانے کا نہیں
بات ہے اور زباں پر نہیں لانے والی
راز ہے اور کسی سے بھی چھپانے کا نہیں
جی میں آتی ہے کہ لَے اور اٹھا تا جاؤں
اور یہ گیت کسی کو بھی سنانے کا نہیں
آپ سودائی ہیں تو شہر میں وحشت کیجے
یہ اثاثہ کسی صحرا میں لٹانے کا نہیں
آپ ہی اپنے لیے گوشہءعا فیّت ہُوں
خود سے نکلوں تو کسی اور ٹھکانے کا نہیں
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...