دیار ِشوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ
گزر رہی ہے مسلسل کسی عذاب کے ساتھ
ہم اہل درد پکارے گئے صحیفوں میں
ہم اہل عشق اتارے گئے کتاب کے ساتھ
پھر ایک شام پذیرائی چشم تر کی ہوئی
پھر ایک شام گزاری گئی جناب کے ساتھ
ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں
سو ہم نے جسم کو ڈھانپا ہے آفتاب کے ساتھ
ہوا نے سادھ لی چپ،رات نے دعا مانگی
ستارہ سہما رہا بجھتے آفتاب کے ساتھ
مکالمہ رہا جاری ہماری آنکھوں کا
بدن کی شاخ پہ کھلتے ہوئے گلاب کے ساتھ
کچھ اور چاہیے تشنہ لبی مٹانے کو
یہ پیاس وہ ہے جو بجھتی نہیں شراب کے ساتھ
زعیم وہ مِری دریا دلی سے ڈرتا ہے
وہ مجھ سے ملتا ہے لیکن بڑے حساب کے ساتھ