سید آل احمد ۔۔۔ یہ الگ بات‘ ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے

یہ الگ بات‘ ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے
اے مری کاہشِ جاں! کس نے ستایا ہے مجھے

اتنی نفرت تو مرے دل میں نہ جاگی تھی کبھی
سوچ‘ کس شخص نے یہ زہر پلایا ہے مجھے

پھر کوئی تازہ کسک دل کی تہوں میں اُتری
پھر کسی خواب نے آئینہ دکھایا ہے مجھے

کس نے لوٹا ہے مرے ذہن کی سوچوں کا سہاگ
اے مرے قلب تپاں! کس نے چرایا ہے مجھے

تیری چیخیں بھی کسی روز سنے گی دُنیا
مصلحت کیش! اگر تو نے رُلایا ہے مجھے

میں یہی سوچ کے چپ ہوں کہ کسی طور سہی
گنبدِ درد کے کنگرہ پہ سجایا ہے مجھے

ابر تزویر ہوا جب بھی کبھی سایہ فگن
حدتِ شعلۂ ادراک نے پایا ہے مجھے

میں تو سر تا بہ قدم تیرا فقط تیرا تھا
ظرفِ کم حوصلہ! خود تو نے گنوایا ہے مجھے

اُس کے گھر میں بھی کسی دُکھ کی سیاہی بھر دے
شب کی دہلیز کا پتھر تو بنایا ہے مجھے

تو مرا کیسا خدا ہے! مری لغزش تو بتا
زندگی بھر جو بلندی سے گرایا ہے مجھے

کس کے اخلاص سے کوتاہی ہوئی ہے احمدؔ
کس نے اس ضبط کا انگارہ بنایا ہے مجھے

Related posts

Leave a Comment