مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی
زیادہ دن نہ چلی دوستی مری اس کی
وہ منہدم ہوا اپنی کشش کے زیرِ اثر
اور ایک نقطے میں جِھلمل سمٹ گئی اس کی
میں ایک منظرِ گم گشتہ کی تلاش میں تھا
اُمید آگے سے آگے لیے پھری اس کی
فسردہ یوں بھی نہیں ہوں مَیں دل کے بجھنے پر
تم آؤ گے تو چمک لوٹ آۓ گی اس کی
نہ صرف یہ کہ چھٹی حِس یقیں دلاتی ہے
گواہی دیتے ہیں پانچوں حواس بھی اس کی
خبر دُھوئیں کی طرح پھیلتی گئی شاہد
کہ جس کسی نے سُنی ، سانس رُک گئی اس کی