پُل نہ رہا درمیاں، سیلِ خطر رہ گیا
کوئی اِدھر رہ گیا، کوئی اُدھر رہ گیا
کتنی ہی صبحیں کبھی میرے گریباں میں تھیں
آنکھ میں اب تو فقط خوابِ سحر رہ گیا
کچھ بھی نہیں رہ گیا جسم میں دل کے سوا
راکھ کے اِس ڈھیر میں ایک شرر رہ گیا
جس کے در و بست پر میں نے توجہ نہ دی
آخر اُسی نقش کا مجھ میں اثر رہ گیا
وقت کی لہر اس طرح سب کو بہا لے گئی
اب یہ پتہ ہی نہیں، کون کدھر رہ گیا
Related posts
-
قمر جلالوی ۔۔۔ جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
چھوٹ سکتے ہی نہیں طوفان کی مشکل سے ہم جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو
چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو جو بے اصول ہو، کب چاہئیں... -
غلام حسین ساجد ۔۔۔ جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
غزل جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی...