جس روز شاعری کی خوشی ختم ہو گئی
سمجھو کہ زندگی بھی مری ختم ہو گئی
اے شہر! مَیں نہ کہتا تھاجانے دے دشت میں
لے آخری سڑک بھی تری ختم ہو گئی
یادوں کے آسماں پہ پرندوں کی اک قطار
آہستگی سے چلتی ہوئی ختم ہو گئی
آنسو تمھاری آنکھ میں دیکھوں گا کس طرح
یہ سوچنے میں دل کی گلی ختم ہو گئی
آج ایک خواب جاگتے میں لے اُڑا مجھے
اُمید کی میانہ روی ختم ہوگئی
اے زُلفِ زندگی! ترے بست وکشاد میں
ہم سادگاں کی سادہ دلی ختم ہوگئی
وُہ قحط ِاشک و آہ کا موسم گزر گیا
تجھ سے بچھڑ کے ساری کمی ختم ہو گئی
آخر تجھے بھی مل گیا اک زخم کام کا
ارمان! تیری دربدری ختم ہوگئی