مِٹ نہ جائیں سراب دوری کے
نقش دیکھا کریں گے پانی کے
ہم سروں پر اُٹھائے پھرتے ہیں
سب دروبام اُس حویلی کے
آخری موڑ تھا شکیبائی
ترجماں سو گئے کہانی کے
جنبشِ لب کہیں نہیں، لیکن
بولتے ہیں مزار مٹی کے
ابھی مٹی جبیں سے دھوئی نہ تھی
گُل مہکنے لگے کیاری کے
بیٹھ کر سوچنے لگا میں بھی
میز پر تھے نشان کہنی کے
کیا ہَوا کو خبر نہیں، فرحان
بجھ رہے ہیں چراغ بستی کے