جاں آشوب ۔۔۔ خالد علیم

جاں آشوب
۔۔۔۔۔۔۔

کیا نکلا سنگِ چقماق کے دَور سے یہ نادان
پتھر بن کر رہ گیا پورا، مٹی کا انسان
جذبے پتھر، سوچیں پتھر، آنکھیں بھی پتھر
تن بھی پتھر، من بھی پتھر، پتھر ہے وجدان
اپنے پتھر سینے میں ہے پتھر کی دھڑکن
اپنے پتھر ہونٹوں پر ہے پتھر کی مسکان
آج بھی ہم پتھر کی پوجا پاٹ میں بیٹھے ہیں
اپنے ہاتھ سے آپ تراش کے پتھر کا بھگوان
۔۔۔۔
ہم نے شہر بنائے، ہم نے گھر آباد کیے
ہم نے انسانوں کو دی تہذیبوں کی پہچان
اپنے دِل کا پتھر ہم سے ٹوٹ نہیں سکتا
آج بھی ہم جنگل کے وحشی، آج بھی ہم حیوان
اپنے ساتھ ہی لے آئے ہیں پتھر کی تہذیب
پتھر کے اُس دور سے ہم تہذیب کے پشتی بان
پھولوں پر پتھر برسانے والے پتھر دل
بانٹ رہے ہیں انسانوں میں پتھر کا ایقان
۔۔۔۔
یہ دریا یہ بہتے دریا، یہ ٹھنڈے چشمے
یہ سرسبز زمین، یہ میداں، یہ اونچے کہسار
یہ افلاک رَسا دیواریں اونچے محلوں کی
اور اونچی دیواروں کے یہ فاقہ کش معمار
آج بھی اِن سے سب کو ملتی ہے افلاس کی بھیک
آج بھی ان ایوانوں کی ہے غربت باج گزار
ان طاغوتی ایوانوں میں شیطانوں کا رقص
کل بھی تھا اور آج بھی ہے انسان کی روح پہ بار
۔۔۔۔
سات سمندر، سات زمینیں اور فلک بھی سات
ہر سُو جیسے سات سُروں کا دریا چلتا جائے
دل کے لہو کے ساتھ ہی اپنے جسم کے اندر تک
اک انجانے درد کا لاوا روز پگھلتا جائے
پہلے تو اک زخم تھا لیکن اب بن کر ناسُور
دل آہستہ آہستہ سینے میں پلتا جائے
دِھیرے دِھیرے سر پر موت کے سائے آ پہنچے
رفتہ رفتہ ہاتھ سے جیسے وقت نکلتا جائے
۔۔۔۔
دجلہ دجلہ بہتی آنکھوں کے آشوب میں ہم
سُوکھے تن پر ڈال رہے ہیں جلتی ریت کی دُھول
پلکوں پر نوکیلے کانٹوں کی اک باڑھ لیے
سینے میں رکھتے ہیں ہم سانسوں کے تیز ببول
دل، مٹھی میں جیسے ایک دہکتا انگارہ
اور زباں، جیسے ہو آگ میں لپٹا ہوا مستول
کون دکھائے ہم کو اب سرسبز رُتوں کے خواب
کون نکالے گلشنِ جاں کی بجھتی راکھ سے پھول
۔۔۔۔
کون سموم کی گرم ہوائوں میں خوشبو ڈھونڈے
کون کرے اب آ کر بنجر موسم کو شاداب
وہ جو پہلے کر بیٹھے تھے عیسیٰ کو مصلوب
آ گئے آج خر ِعیسیٰ کی تھامے ہوئے رکاب
امن کے پھول کھلانے کا جو دعویٰ رکھتے تھے
ڈال چکے ہیں صبحِ امن کے چہرے پر تیزاب
کٹ گئے کتنے سَر تو کتنے پس انداز ہوئے
غارتِ انساں کے باقی ہیں کتنے اور عذاب
۔۔۔۔
اس سے تو وہ رات بھلی تھی، خاموشی کی رات
بہتر تھا ان روشنیوں سے تاریکی کا جال
اندھی ہو گئیں آنکھیں اپنی جلتی کرنوں سے
مَکر کے سورج نے اس بار چلی ہے ایسی چال
کوئی مہدی کوئی عیسیٰ اُترے اور دیکھے
کتنے معصوموں کے سَروں کو کاٹ چکا دَجّال
لیکن کب تک، آخر کب تک، اک دن ہم کو ہی
تیروں کی اس بارش میں بننا ہے اپنی ڈھال
۔۔۔۔
توڑ دیے جائیں جب سَرکش دریائوں کے بند
ریت کی سب دیواریں پانی میں بہہ جاتی ہیں
آخر ایسی چیز ہی کیا ہے دریائوں کی ریت
بڑی بڑی پتھر کی بنیادیں ڈِہ جاتی ہیں
وقت کی لوح سے مٹ جاتی ہیں کتنی ہی شکلیں
وہ بھی مٹ جاتی ہیں جو باقی رِہ جاتی ہیں
تیز ہوائیں چلتی ہیں جب اُجڑی بستی میں
ظلم و ستم کے کتنے افسانے کہہ جاتی ہیں
۔۔۔۔
صدیاں بیتیں، بھول گئے ہم اپنی ہی پہچان
صدیاں بیت گئی ہیں غیروں کا معمول ہوئے
اپنے ہاتھوں اپنی گردن پر تلوار رکھی
خود ہی قاتل ٹھہرے ہم ، خود ہی مقتول ہوئے
ہم نے اپنی وحشت کا خود ہی سامان کیا
خود ہی اپنی دُھول اڑائی، خود ہی دُھول ہوئے
خاک نشیں تھے، ڈالی ہم نے اپنے سَر پر خاک
مٹی ہو کر بیٹھ گئے، مٹی کا مُول ہوئے
۔۔۔۔
تن کی مٹی ریزہ ریزہ ہو کر بکھری ہے
ہاتھ کی سب ریکھائیں بھی مٹی ہو جائیں گی
چھا جائے گی آخر اپنے سر پر کالی رات
دھوپ کی زرد شعاعیں کب تک ہمیں بچائیں گی
ہر جانب طوفانوں جیسے دریائوں کے بیچ
ریت کی یہ دیواریں کتنا ساتھ نبھائیں گی
دیکھ رہے ہوں گے خود اپنی بربادی کو ہم
جسم فنا ہو جائیں گے، آنکھیں رہ جائیں گی
۔۔۔۔
اپنی حمیت کھو دینے کا ہم نے جرم کیا
اور اس پر ہم مجرم بھی کس کو ٹھہرائیں گے
صحرا جیسی خاموشی ہے اپنے جذبوں میں
اب تک ایسے ہیں تو ہم کل کیا ہو جائیں گے
دشتِ نجد میں ناقۂ لیلیٰ کے آوارہ ہم
آخر کب تک صحرائوں کی دُھول اڑائیں گے
خاک کے جسم تو چھو لینے سے ہو جاتے ہیں ڈھیر
اپنے گرد کہاں تک دیواریں چنوائیں گے
۔۔۔۔
ہم غاروں کے باشندے، تہذیب سے ناواقف
کب اپنے کانوں میں آوازِ دنیا پہنچی
کب ہم نے دیکھا کس پر کیا بیتی، کیوں بیتی
کب ہم نے دیکھا کس تک کیوں برقِ بلا پہنچی
ہم ہیں اپنے کہساروں میں پلنے والے لوگ
ہم کو کیا معلوم کہ دنیا چاند پہ جا پہنچی
ہم اپنی محدود زمین پہ چلنے والے لوگ
کچھ سمجھے تو سَر پر ایک قیامت آ پہنچی
۔۔۔۔
اپنے سائے سے بھی ڈرتے پھرتے ہیں، یوں تو
عزم کے ہم فرہاد ہوئے، ہمت میں فرد ہوئے
وقت نے کیسی کالک مَل دی اپنے چہرے پر
ہم نے حق کا نام لیا اور دہشت گرد ہوئے
جو بھی ہم کو نام ملا، ہم نے پرنام کیا
رنگ ہمارے مر جانے کے خوف سے زرد ہوئے
کون لکھے اب اپنا نوحہ، کون کرے ماتم
سارے لفظ تمام ہوئے، سب جذبے سرد ہوئے
۔۔۔۔
اس تاریک نگر میں اک پُرنور جزیرے کی
ہم نے تصور میں کتنی ہی شکلیں ڈھالی ہیں
کوئی مسافر چلنے کو تیار نہیں ہوتا
شہر یقیں کو جانے والے رستے خالی ہیں
دشتِ گماں آباد سے آگے کوئی نہیں جاتا
ورنہ تو کتنی ہی راہیں جانے والی ہیں
مانگ رہے ہیں پیچھے مڑ کر ہم منزل کی بھیک
پائوں میں پتھر باندھ لیے ہیں، ہاتھ سوالی ہیں
۔۔۔۔
آوازوں کا اک جمگھٹ ہے اپنے چاروں اور
اپنے اپنے ساز کی لے پر سب کے لہجے تیز
صوت و صدا کے سب پیغمبر، سب ہی نقش نگار
اپنے اپنے رنگ میں سب نغمات ہیں سِحْر انگیز
سب اپنی آوازوں کے حیرت خانے میں گم
اپنی اپنی دُھن میں سب کے راگ قیامت خیز
نشّۂ حرف و نوا میں سب کے ذہن ہوئے مسحور
اور ہیں بادۂ فکر سے سب کے پیمانے لب ریز
۔۔۔۔
ہمیں نکالے جو لفظوں کے حیرت خانے سے
کوئی ایک صدا، بس کوئی ایک صدا ایسی
شہرِ یقیں آثار کی جانب ہم کو لے جائے
دشتِ گماں آباد میں بھی تو چلے ہَوا ایسی
عزم کا تیشہ ہاتھ میں لے کر کوئی تو نکلے
راہ میں اپنی حائل ہے دیوارِ اَنا ایسی
بہروں کی اندھی نگری میں کوئی ایک پکار
بجلی کے کڑکے جیسی، منہ زور گھٹا ایسی
۔۔۔۔
اے رہوارِ قلم لے جا تو دل کے نگر سے دُور
جو منظر تجھ کو ٹھہرا دے اُس منظر سے دُور
ایک ڈرانے والی کالی رات کے جنگل میں
قافلہ اپنا رُکا ہوا ہے دشتِ سحر سے دُور
خیمۂ جاں کی سبھی طنابیں ٹوٹنے والی ہیں
ہم نے پڑائو ڈال رکھا ہے شہرِ خبر سے دُور
مطلعِ صبح پہ رات کی مُشکیں ٹوٹنے والی ہیں
ہم خوابیدہ تن بیٹھے ہیں عزمِ سفر سے دُور
۔۔۔۔
سایوں پر تکیہ کیسا، سائے ڈھل جاتے ہیں
سائے، سائے ہوتے ہیں دیوار نہیں ہوتے
دل کے نگر سے جاں کے نگر تک صدیاں لگتی ہیں
ہمت کے لشکر یوں ہی تیار نہیں ہوتے
پہلے اپنے تن کی آگ میں جلنا پڑتا ہے
رات کے منظر یونہی سحر آثار نہیں ہوتے
پہلے خود جاں کے گرداب سے لڑنا پڑتا ہے
یوں ہی تو منہ زور سمندر پار نہیں ہوتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment