علامہ طالب جوہری ۔۔۔ دھندے

دَھندے
۔۔۔۔۔۔
پچھلے سفر میں
لندن کے اک تُرکی رستوران کے اندر
اُس نے کہا تھا

"سارے کاموں کو نپٹا کر میرے پاس چلے آنا
رشتے، ناطے
مستقبل کے سب منصوبے
جب تم اپنے دھندوں سے فارغ ہو جائو
میرے پاس چلے آنا
ہم تم دونوں

اپنے جنوں کی شمع جلا کر
اپنے گھر کا گھور اندھیرا دُور کریں گے
اور وہ گھر آباد رہے گا”

لیکن مَیں اِک سندھی گوٹھ میں
پھونس کے چھپر والے ہوٹل کی کرسی پر
کب سے بیٹھا سونچ رہا ہوں
دنیا کے دھندے کس نے نپٹائے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعری مجموعہ: حرفِ نمو
تدوین: مشکور حسین یاد، سرفراز زاہد
ناشر: ذوالفقار علی شیخ
سنِ اشاعت: ۱۹۹۶ء

Related posts

Leave a Comment