بانی ۔۔۔۔ گزر رہا ہوں سیہ، اندھے فاصلوں سےمیں

گزر رہا ہوں سیہ، اندھے فاصلوں سےمیں
نہ اب ہوں رہ سے عبارت، نہ منزلوں سےمیں

کہاں کہاں سے الگ کر سکوگے تم مجھ کو

جُڑا ہوا ہوں یہاں لاکھ سلسلوں سےمیں

قدم ملانے میں سب کر رہے تھے قوتیں صرف

مِلا ہوں راہ میں کتنے ہی قافلوں سےمیں

میں اس کے پاؤں کی زنجیر دیکھتاتھا بہت

کچھ آشنا نہ تھا اپنی ہی مشکلوں سےمیں

عجیب لوگ ہیں، کچھ کہہ لو، مان لیتے ہیں!!

ہوا ہوں زیر بہت زود قاتلوں سےمیں

کہو تو ساتھ بہا لے چلوں یہ دکھ بھرے شہر

الگ نہیں اِنھیں کھوٹے کھرے دلوں سے میں

Related posts

Leave a Comment