محمد علوی ۔۔۔۔۔۔۔ آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں

آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں
ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں

گلی گلی میں اپنے آپ کو ڈھونڈتا ہوں
اک اک کھڑکی میں اس کو پاتا ہوں میں

اپنے سب کپڑے اس کو دے آتا ہوں
اس کا ننگا جسم اٹھا لاتا ہوں میں

بس کے نیچے کوئی نہیں آتا پھر بھی
بس میں بیٹھ کے بے حد گھبراتا ہوں میں

مرنا ہے تو ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں
ٹھہر ذرا، گھر جا کے ابھی آتا ہوں میں

گاڑی آتی ہے لیکن آتی ہی نہیں
ریل کی پٹری دیکھ کے تھک جاتا ہوں میں

علوی پیارے! سچ سچ کہنا، کیا اب بھی
اسی کو روتا دیکھ کے یاد آتا ہوں میں

Related posts

Leave a Comment