دِلی جو ایک شہر تھا ۔۔۔ محمد علوی

دِلّی جو ایک شہر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع مسجد بُلاتی رہی
میں نہ پہنچا تو سارا قلعہ
مارے غصے کے لال ہو گیا
نئی دِلی کی سڑکوں پہ پھرتی ہوئی لڑکیاں
مجھ سے ملنے کی خواہش لیے،
سو کو بالوں سے آزاد کر کے
ننگے بدن، ننگے سر سو گئیں
اور کیا کیا ہوا، یاد آتا نہیں!
ہاں مگر یاد ہے،
اب بھی اچھی طرح یاد ہے،
چاندنی چوک میں رات کو دو بجے
چومنا ایک کو ایک کا
اک حماقت ۔۔۔۔
مگر پھر بھی کتنی حسیں!
رات آئے تو پاتا ہوں
خود کو وہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔

مجموعہ کلام: تیسری کتاب
شعور پبلی کیشنز، راجندر نگر، نئی دہلی
۱۹۷۸ء

Related posts

Leave a Comment