سچ ہے کہ وہ برا تھا، ہر اک سے لڑا کیا لیکن اسے ذلیل کیا یہ برا کیا گلدان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں کرسی نے اس کو دیکھ کے آغوش وا کیا گھر سے چلا تو چاند مرے ساتھ ہو لیا پھر صبح تک وہ میرے برابر چلا کیا کوٹھوں پہ منہ اندھیرے ستارے اتر پڑے بن کے پتنگ میں بھی ہوا میں اڑا کیا اس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا چھوڑو پرانے قصوں میں کچھ بھی…
Read MoreMonth: 2025 اکتوبر
محسن اسرار
بھرم تو رکھنا ہی پڑتا ہے اس کی محفل کا بغیر کھائے پیے ہاتھ دھونے لگتے ہیں
Read Moreحفیظ جونپوری ۔۔۔ محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں
محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں ہم ان کو آزماتے ہیں وہ ہم کو آزماتے ہیں نہ گھٹتی شانِ معشوقی جو آ جاتے عیادت کو برے وقتوں میں اچھے لوگ اکثر کام آتے ہیں جو ہم کہتے نہیں منہ سے تو یہ اپنی مروت ہے چرانا دل کا ظاہر ہے کہ وہ آنکھیں چراتے ہیں سماں اس بزم کا برسوں ہی گزرا ہے نگاہوں سے کب ایسے ویسے جلسے اپنی آنکھوں میں سماتے ہیں کہاں تک امتحاں کب تک محبت آزماؤ گے انہی باتوں سے دل اہلِ…
Read Moreعظمت حسین خان
ابر گِھر گِھر کے چلا آتا ہے میخانے کو کاش ساقی کو بھی آ جائے ترس اب کے برس
Read Moreنعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ غلام حسین ساجد
نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کارِ دنیا سے دامن بچاتے ہوئے، آپ کے در سے خیرات پاتے ہوئے آپ کی روشنی میں نہاؤں گا مَیں، سبز گنبد کے سائے میں آتے ہوئے گاہے رُکتا ہوں حدّت بھری ریت پر، گاہے چلتا ہوں مستی میں بارِ دگر اِس لیے شوق سے دیکھتے ہیں مجھے چاند تارے مدینے کو جاتے ہوئے پھول کِھلنے لگے، پیڑ چلنے لگے، ساری دنیا کے موسم بدلنے لگے آپ کی مسکراہٹ امر ہو گئی نقشِ باطل کو دل سے مِٹاتے ہوئے آپ کے ہر عمل…
Read Moreسجاد بلوچ
اک تماشا ہے دل کی حالت کا ایک حالات کا تماشا ہے
Read Moreاحمد فراز
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر پاؤں بھی ہیں شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا
Read Moreادا جعفری
امید کا گھروندا پل میں گرا دیا ہے تجھ کو بھی کیا کسی نے دل سے بھلا دیا ہے
Read Moreجوش ملیح آبادی ۔۔۔ پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم
جوشؔ کی یہ غزل عشقِ بے خود، خرد شکنی، اور وجودی بے چینی کا آئینہ ہے، جہاں دل کی ہر دھڑکن میں ایک انقلاب انگڑائی لیتا ہے۔
الفاظ میں وہی آتش، وہی سیال تپش ہے جو جوش کے لہجے کو شعلۂ گفتار بنا دیتی ہے۔
شاعر، سرِ تسلیم خم کرنے میں بھی عارفانہ جرأت کا اعلان کر رہا ہے، گویا خاک میں بھی اکسیرِ حیات ملائی جا رہی ہو۔
زندگی کی آسائشوں سے بیزاری، اور دیوانگی کو سعادت جاننا، رندیِ عارفانہ کا نادر مظہر ہے۔
یہ غزل نہیں، حیات و کائنات کے طلسمات پر سوال اٹھاتی ہوئی ایک فکری زنجیر ہے، جس کی ہر کڑی شعور و وجدان سے پیوستہ ہے۔
نجیب احمد
آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا ایک دن رات ڈھلے یوم حساب آئے گا
Read More