جوش ملیح آبادی ۔۔۔ پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم

جوشؔ کی یہ غزل عشقِ بے خود، خرد شکنی، اور وجودی بے چینی کا آئینہ ہے، جہاں دل کی ہر دھڑکن میں ایک انقلاب انگڑائی لیتا ہے۔
الفاظ میں وہی آتش، وہی سیال تپش ہے جو جوش کے لہجے کو شعلۂ گفتار بنا دیتی ہے۔
شاعر، سرِ تسلیم خم کرنے میں بھی عارفانہ جرأت کا اعلان کر رہا ہے، گویا خاک میں بھی اکسیرِ حیات ملائی جا رہی ہو۔
زندگی کی آسائشوں سے بیزاری، اور دیوانگی کو سعادت جاننا، رندیِ عارفانہ کا نادر مظہر ہے۔
یہ غزل نہیں، حیات و کائنات کے طلسمات پر سوال اٹھاتی ہوئی ایک فکری زنجیر ہے، جس کی ہر کڑی شعور و وجدان سے پیوستہ ہے۔

Read More

جوش ملیح آبادی ۔۔۔ موج دریا پہ چھا رہا ہے یہ کون

یہ غزل جوش ملیح آبادی کی تخیل انگیز، شہوانی و روحانی، وجدانی اور تمثیلی شاعری کا نادر و نایاب شاہکار ہے، جس میں حس، خواب، بدن، عشق، موسیقی، روشنی، ذہن، اور روح سب بیک وقت متحرک ہیں۔ پوری غزل ایک ہی سوال پر قائم ہے:

"یہ کون؟”

جیسے عشق، وجود، کائنات، فطرت، نسوانی حسن، اور الوہی اسرار — سب مل کر ایک منظرنامۂ تجلیات تشکیل دے رہے ہوں۔

Read More

جوش ملیح آبادی ۔۔۔ اے بہ رخ مصحف گلزار و چراغ حرم غنچگی و آیۂ گل باری و قرآن بہار

یہ غزل جوش ملیح آبادی کی خطیبانہ جولانی، استعارہ ساز فطرت، اور آتش بیانی کی درخشندہ مثال ہے۔
زبان میں ایک طرف فصاحت و بلاغت کی روانی ہے تو دوسری طرف فکر و جذبہ کی طغیانی۔
شاعر نے بہار کو محبوبِ خوابیدہ، پیامبرِ نشاط، اور روحِ جہاں کی صورت مخاطب کیا ہے۔
موضوع میں کائناتی افسردگی، تہذیبی جمود، اور حیاتِ نو کی پکار نمایاں ہے۔
یہ کلام محض غزل نہیں، بلکہ نثرِ مسجع کا نغماتی ارتعاش اور جوشیانہ سرشاری کا آئینہ دار ہے۔

Read More

جوش ملیح آبادی ۔۔۔ گدازِ دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا

یہ غزل باطن کی تجلی، روح کی بیداری، اور محبت کی معنوی تطہیر کا شعری مظہر ہے، جہاں ہر شعر اک اشکِ فکر، اک صداے دل معلوم ہوتا ہے۔
جوشؔ نے اپنے مخصوص خطیبانہ آہنگ میں حسن، وفا، اور معاشرتی اقدار پر نہ صرف تنقید کی ہے بلکہ انہیں روحانی کشف و جذب کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔
اشعار میں اندیشہ و وجد کی وہ چنگاری موجود ہے جو دل کو لرزاں و ترساں رکھتی ہے—خصوصاً جب نویدِ عیش کے پیچھے نئی مصیبت کی آہٹ سنائی دے۔
شاعر حسن کے تغافل، ضبطِ شوق کی زہرناکی، اور اہلِ دنیا کی بے حسی پر شعلہ بیانی کے ساتھ اظہارِ افسوس کرتا ہے۔
یہ غزل جوشؔ کی عشقِ آگیں، فکرِ دروں بیں، اور سچ کہنے کی بیباک روایت کا درخشندہ استعارہ ہے، جہاں ہر لفظ بجائے خود تپش رکھتا ہے۔

Read More

جوش ملیح آبادی ۔۔۔ دوستو وقت ہے پھر زخم جگر تازہ کریں

یہ غزل ایک نویدِ تجدیدِ وفا ہے، جہاں شاعر اہلِ درد کو پکار کر دلوں کے زخموں کو تازگی، اور نگاہوں کو نئی روشنی کی دعوت دیتا ہے۔
ہر شعر میں فکری تموّج، تہذیبی سرفرازی، اور روحانی احیاء کی لہریں محسوس ہوتی ہیں، گویا غروب و طلوع کے پیمانے پر دل و نظر کی تطہیر ہو رہی ہو۔
"کلۂ فقر” اور "تاج و کمر” جیسے استعارے شجاعت، انا، اور فقرِ قلندرانہ کے حسین امتزاج کی علامت ہیں۔
شاعر ماضی کے جمالیاتی شعور کو شغلِ پارینہ کہہ کر ایک نئی سخن خیزی کا پیغام دیتا ہے، جس میں عشق، فن، اور دانش کی رونق پھر سے تازہ کی جائے۔
آخری شعر میں جوش اپنے لیے "شاہِ سخن” کا خلعتِ افتخار طلب نہیں کرتا، بلکہ اسے دل و دینِ سخن کا تازہ خون عطا کرنے کی تمنا کرتا ہے۔

Read More

جوش ملیح آبادی ۔۔۔ فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو

فکر ہی ٹھہری تو دل کو فکرِ خوباں کیوں نہ ہو خاک ہونا ہے تو خاکِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو دہر میں اے خواجہ ٹھہری جب اسیری ناگزیر دل اسیرِ حلقۂ گیسوئے پیچاں کیوں نہ ہو زیست ہے جب مستقل آوارہ گردی ہی کا نام عقل والو پھر طوافِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو جب نہیں مستوریوں میں بھی گناہوں سے نجات دل کھلے بندوں غریقِ بحرِ عصیاں کیوں نہ ہو جب خوش و ناخوش کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ہاتھ ہم نشیں پھر بیعتِ جامِ زر افشاں…

Read More

جوش ملیح آبادی ۔۔۔ نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز

نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز وہ سر جو تیری راہ گزر میں تھا سجدہ ریز میں نے کسی قدم پہ جھکایا نہیں ہنوز محرابِ جاں میں تو نے جلایا تھا خود جسے سینے کا وہ چراغ بجھایا نہیں ہنوز بے ہوش ہو کے جلد تجھے ہوش آ گیا میں بد نصیب ہوش میں آیا نہیں ہنوز مر کر بھی آئے گی یہ صدا قبرِ جوش سے بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز

Read More

جوش ملیح آبادی ۔۔۔ یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی

یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی نغمے بنے ہیں گریۂ پنہاں کبھی کبھی ہونکی ہیں بادِ صبح کی رو میں بھی آندھیاں ابلا ہے ساحلوں سے بھی طوفاں کبھی کبھی بڑھتا چلا گیا ہوں انہی کی طرف کچھ اور یوں بھی ہوا ہوں ان سے گریزاں کبھی کبھی آنچوں میں گنگناتے ہیں گلزار گاہ گاہ شعلوں سے پٹ گیا ہے گلستاں کبھی کبھی لے سے نکل پڑی ہے کبھی ہچکیوں کی فوج آہیں بنی ہیں راگ کا عنواں کبھی کبھی دامانِ گل رخاں کی اڑا دی ہیں…

Read More

جوش ملیح آبادی ۔۔۔ میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی

میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی شبنم کو پی رہی ہے کرن آفتاب کی بجھنے پہ دل ہے سانس میں بھی ضابطہ نہیں ظالم دہائی ہے ترے زورِ شباب کی منظور ہے خدا کو تو پہنچوں گا روزِ حشر چہرے پہ خاک مل کے درِ بوتراب کی صورت پرست میری نگاہوں نے اصل میں دل کیا مرے وجود کی مٹی خراب کی ہر پنکھڑی کے طاق میں ہنس ہنس کے صبح کو شمعیں جلا رہی ہے کرن آفتاب کی

Read More