تنہا تھا مثلِ آئنہ تارہ ، سرِ اُفق
اُٹھتی نہ تھی نگاہ دوبارہ ، سرِ افق
سب دم بخود پڑے تھے خسِ جسم و جاں لیے
لہرا رہا تھا کوئی شرارہ سرِ افق
اک موجِ بے پناہ میں ہم یوں اُڑے پھرے
جیسے کوئی طلسمی غبارہ سرِ افق
کب سے پڑے ہیں بند زمان و مکاں کے در
کوئی صدا نہ کوئی اشارہ سرِ افق
سب کچھ سمیٹ کر مرے اندر سے لے گیا
اک ٹوٹتی کرن کا نظارہ سرِ افق
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
ادا پریوں کی، صورت حور کی، آنکھیں غزالوں کی غرض مانگے کی ہر اک چیز ہے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے
وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے وہ... -
محمد علوی ۔۔۔ ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں مگر پہچاننے والے کہاں ہیں کہیں پر سلسلہ ہے کوٹھیوں...