حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ اب پشیمان و پریشاں ہیں کہ گھاٹاکیوں کیا

اب پشیمان و پریشاں ہیں کہ گھاٹاکیوں کیا
بولئے پھر پتھروں سے دل کا سودا کیوں کیا

لن ترانی کی صدا ہر آیتِ قدرت میں ہے
اپنی ناموجودگی کا اتنا چرچا کیوں کیا

آنے والے کل کی چیخیں کہہ رہی ہیں مجھ سے آج
جو نہیں دیکھے تھے ان خوابوں کو رسوا کیوں کیا

تیرتے ہیں پانیوں پر اب غباروں کی طرح
سوچتا ہوں پتھروں نے خود کو ہلکا کیوں کیا

خود سے باہر آکے خود کو خود پہ ظاہر کردیا
میں تو اپنا رازداں تھا، میں نے ایسا کیوں کیا

جو نظر آتا ہے ، کیوں ان کو نظر آتا نہیں
آنکھ والوں نے یہاں پر خود کو اندھا کیوں کیا

ساتواں در، آٹھواں رنگ آج تک پردے میں ہیں
ہم سے جب پوشیدہ رکھنا تھا تو پیدا کیوں کیا

Related posts

Leave a Comment