ترے جمال سے ہم رُونما نہیں ہوئے ہیں
چمک رہے ہیں مگر آئنہ نہیں ہوئے ہیں
دھڑک رہا ہے تو اک اسم کی ہے یہ برکت
وگرنہ واقعے اِس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں
بتا نہ پائیں تو خود تم سمجھ ہی جاؤ کہ ہم
بلا جواز تو بے ماجرا نہیں ہوئے ہیں
ترا کمال کہ آنکھوں میں کچھ، زبان پہ کچھ
ہمیں تو معجزے ایسے عطا نہیں ہوئے ہیں
یہ مت سمجھ کہ کوئی تجھ سے منحرف ہی نہیں
ابھی ہم اہلِ جنوں لب کُشا نہیں ہوئے ہیں
بنامِ ذوقِ سخن خود نمائی آپ کریں
ہم اس مرض میں ابھی مبتلا نہیں ہوئے ہیں
ہمی وہ، جن کا سفر ماورائے وقت و وجود
ہمی وہ، خود سے کبھی جو رہا نہیں ہوئے ہیں
خود آگہی بھی کھڑی مانگتی ہے اپنا حساب
جنوں کے قرض بھی اب تک ادا نہیں ہوئے ہیں
کسی نے دل جو دکھایا کبھی، تو ہم عرفانؔ
اُداس ہو گئے، لیکن خفا نہیں ہوئے ہیں