حصارِ مہر جو مسمار ہوتا جاتا ہے
دراز سایۂ دیوار ہوتا جاتا ہے
یہ کس نے دُھوپ کنارے سے جھانک کر دیکھا
افق بھی سرخیِ رخسار ہوتا جاتا ہے
شکار گاہ میں ہانکا کرانے والا ہوں
ہدف بھی میرا طلب گار ہوتا جاتا ہے
شہابِ ثاقبِ دل ٹوٹ کر گرا جائے
کمالِ دیدۂ مے خوار ہوتا جاتا ہے
دیارِ ہجر میں پازیبِ غم چھنکتی سن
شکیب درد کی جھنکار ہوتا جاتا ہے
اشارہ پاتے ہی وہم و گماں، یقین ہوئے
کشادہ جامۂ اسرار ہوتا جاتا ہے
اے چوبِ خیمۂ جاں کو اکھاڑنے والے
ثبات یافتہ انکار ہوتا جاتا ہے
ترے جمال کی شورش کا شاخسانہ ہے
زمانہ برسرِ پیکار ہوتا جاتا ہے
میں دل گرفتہ بھی ہو کر ہوں شادمانی میں
یہ رنج کیسا فسوں کار ہوتا جاتا ہے
میاں وہ صاحبِ عرفان خوش مقال ہوا
سخن حلاوتِ گفتار ہوتا جاتا ہے
عجیب طرز کی ہے داستاں طرازی یہ
کہانی کار بھی کردار ہوتا جاتا ہے
ہمارا حال بھی ماضی پرست ہے اصغر!
گذشتہ، آج میں درکار ہوتا جاتا ہے