رُوپ نگر کی رانی سے ڈر لگتا ہے
خوشبو اور جوانی سے ڈر لگتا ہے
اُس کی چاہت حد سے بڑھتی جاتی ہے
اب تو اُس دیوانی سے ڈر لگتا ہے
اُس کے پیار میں آگے جا تو سکتا ہوں
لیکن اِس نادانی سے ڈر لگتا ہے
بچتا ہوں میں آئینے سے مجھ کو بھی
آنکھوں کی ویرانی سے ڈر لگتا ہے
خوف ہے مجھ کو رات گئے تک رونے سے
غم کی یاد دہانی سے ڈر لگتا ہے
رُت کے ہر طوفان سے ہوں مانوس، مگر
بے موسم طغیانی سے ڈر لگتا ہے
جب سے اُس کی آنکھ میں آنسو دیکھے ہیں
تب سے مجھ کو پانی سے ڈر لگتا ہے