شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے
در پر مرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے
آواز کوئی سر سے گزرتی چلی گئی
میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے
ہر گز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مری
ہاں کچھ بھی جو کہے جو یہاں کامیاب ہے
شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا
اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے
اک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پل رہا ہے کھوٹ
بانی ابھی وہ اپنے لیے خود عذاب ہے
Related posts
-
احمد فراز ۔۔۔ آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اُتر جائے گا وقت کا کیا ہے گزرتا ہے... -
محمد علوی ۔۔۔ دن میں پریاں کیوں آتی ہیں
دن میں پریاں کیوں آتی ہیں ایسی گھڑیاں کیوں آتی ہیں اپنا گھر آنے سے پہلے... -
سید آل احمد ۔۔۔ سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے...