حسرت کی شاعری کی قدروقیمت کو پرکھتے وقت ان کے ان اشعار کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے: شعر در اصل ہیں وہی حسرت سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں غالب و مصحفی و میر و نسیم و مومن طبعِ حسرت نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض ہے زبانِ لکھنؤ میں رنگِ دہلی کی نمود تجھ سے حسرت نام روشن شاعری کا ہو گیا رکھتے ہیں عاشقانِ حسنِ سخن لکھنوی سے نہ دہلوی سے غرض تو نے حسرت کی عیاں تہذیبِ رسمِ عاشقی تجھ سے پہلے اعتبارِ شانِ…
Read MoreCategory: منتخب مضامين
اکرم کنجاہی ۔۔۔ زاہدہ حنا
زاہدہ حنا زاہدہ حنا ایک ممتاز صحافی، کالم نگار، فکشن اور ڈراما نگار ہیں۔ ۵؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کے روز سہسرام (بہار) میں پیدا ہوئیں۔والد کی ملازمت کی وجہ سے بچپن رام پور میں گزرا۔اُردو اور فارسی کا کلاسیکی ادب اپنے والد سے پڑھا۔اِن کی ادبی تربیت میں والد کا بہت حصہ رہا۔بہت عرصے سے ایک قومی اخبار میں ’’نرم گرم‘‘ کے نام سے کالم لکھ رہی ہیں۔وہ ریڈیو پاکستان، بی بی سی اور وائس آف امریکا سے بھی منسلک رہیں۔ اِن دنوں ادارہ انجمن ترقیٔ اُردو، کراچی کی سربراہ ہیں۔اُن…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ پروین شاکر
پروین شاکر پروین شاکر کے ہاں بھی اظہارِ ذات اور انکشافِ ذات زیادہ ہے مگر اظہارِ بیاں کی ایسی خوب صورتی کے ساتھ کہ اُن کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رہی درد کی کائنات بن گیا۔اگرچہ وہ خود اپنے ہم عصروں میں پروین فنا سید،کشور ناہیداورفہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں مگراُن کے کلام کی تاثیر اور مقبولیت نے انہیں دورِ جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام پر لا کھڑا کیا۔یوں اُنہیں کم عرصے اور کم عمری ہی میں ایسی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کہ پیش روؤں…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ یاسمین حمید
یاسمین حمید ادبی دنیا میں یاسمین حمید کا پہلا تعارف شعری مجموعہ ’’پس آئینہ‘‘ (1988 ء) سے ہوا۔وہ بہت پہلے سے شعر کہہ رہی تھیں اور پختہ کار تھیں۔ لہٰذا فکری و اسلوبیاتی سطح پر پسِ آئینہ نے ادبی دنیا پر اپنا بھر پور تاثرقائم کیا۔ہم محدود مطالعے کے باعث نسائی شاعری کو ادا جعفری سے شروع کر کے پروین شاکر یا پھر شبنم شکیل پر ختم کر دیتے ہیں۔حالاںکہ اُن کی پیش رو شاعرات کے ابتدائی شعری مجموعے زیرِ مطالعہ لائیے، آپ اِس بات سے اتفاق کریں گے کسی…
Read Moreڈاکٹر ضیاء الحسن … محمد حمید شاہد کا افسانوی اسلوب
محمد حمید شاہد کا افسانوی اسلوب …………………………………………………………. جس طرح ہر کہانی افسانہ نہیں ہوتی، اسی طرح ہر افسانے میں کہانی کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔کہانی اور افسانے میں ایک نامعلوم سا لطیف تعلق ہو تا ہے جو ٹوٹ جائے تو لفظوں کا گورکھ دھندہ رہ جاتا ہے اور اگر صرف یہی تعلق رہ جائے تو حاصل جمع کہانی کی صورت میں بچتا ہے ۔افسانہ نگار کہانی بیان نہیں کر تا بل کہ کہانیوں کے باطن میں پوشیدہ کسی ایسے عنصر کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے جس…
Read Moreمحمد یعقوب آسی ۔۔۔ برگِ آوارہ کی تمثیل
برگِ آوارہ کی تمثیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱) کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لیے بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے نہ جانے کون سا لمحہ تھا جب میں نے خود کو امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ علی مطہر اشعر کی شاعری پر بات کرنا برگِ آوارہ کی تمثیل سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔ بہاروں کے سودائی تو بہت ہیں کہ برگ و گل سب کو اچھے لگتے ہیں ۔ خزاں سے پیار کرنے کا سلیقہ کم کم لوگوں کو آتا ہے ۔ اشعر صاحب کا…
Read Moreڈاکٹر زاہد منیر عامر ۔۔۔ جھوٹی تہذیب اور سچا آدمی
جھوٹی تہذیب اور سچا آدمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہندوستانی راہ نما کا بیٹا کسی پری پیکر کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔لڑ کی بابا کے دوست کی بیٹی تھی۔خواہش تھی کہ اس چاہت کو جیون بھر کے بندھن میں بدل دیا جائے ۔۔۔مطالبہ باپ کے سامنے رکھا گیا۔۔۔نام ور اور جہاں دیدہ باپ نے کہا:’بیٹا! اگر اگلے پانچ برس تک تمھاری یہ خواہش زندہ رہی تو اپنے ہاتھوں تمھارا یہ مطالبہ پورا کر وں گا‘۔۔۔اور بیٹے کو دور دراز آزادی کی جنگ لڑ نے بھیج دیا۔ یہ پانچ سال نہیں…
Read Moreناصر زیدی ۔۔۔ حُسین سحر (لوگ کیوں زیرِزمیں روز چلے جاتے ہیں؟)
حُسین سحر (لوگ کیوں زیرِزمیں روز چلے جاتے ہیں؟) رواں سال یعنی۲۰۱۶ء میں یکم جنوری سے یکم اکتوبر تک پورے نوماہ کے دوران میں اس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سُدھار جانے والے شعرا و ادبا ودانش وَر حضرات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ محض نام گِنوانے میں زمانے لگ جائیں۔ اس موقع پر یہ مشہور ِ زمانہ شعر یاد آتا ہے: لوگ کیوں زیرِ زمیں روز چلے جاتے ہیں نہیں معلوم تہِ خاک تماشا کیا ہے؟ جانے والوں کا ذکرِ خیر ہی دراصل ان کا آخری…
Read Moreناصر زیدی ۔۔۔ مرزا : میرایار (پروفیسر ڈاکٹر مرزابیگ)
مرزا : میرایار (پروفیسر ڈاکٹر مرزابیگ) مرزامیرادوست نہیں،میرا یار ہے۔ مرزایعنی پروفیسر ڈاکٹر مرزاحامد بیگ! جسے میں پیار سے’ ’مرزاقادیان والے‘‘ کہہ کر پکارتا ہوں تو ملکہ ترنم کے گائے ہوئے اس پنجابی گیت کی طرح’’جدوں ہولی جئی لیندا میر اناں،میں تھاں مرجاندی آں‘‘مرزاتھاں نہیں مرجاتا،بلکہ میرے ’’ہولے جئی‘‘ نہیں، پورے زور سے اس لاحقے کے ساتھ پُکارنے پر کھلکھلا کر ہنستاہے اور پھر ہنستا ہی چلا جاتاہے۔ میری طرف سے دیے گئے اس اعزاز کو وہ اس طرح خوش دلی سے قبول کرتا ہے گویا اس کے من کی…
Read Moreناصر زیدی ۔۔۔ آہ قمر علی عباسی! چاند پورا ہے، روشنی کم ہے
آہ قمر علی عباسی! چاند پورا ہے، روشنی کم ہے کیسے کیسے نابغہ ٔ روزگار دُنیا سے اُٹھتے جا رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ چیونٹی کی رفتار سے بھی اُن کے متبادل پیدا نہیں ہو رہے۔ یوں تو کوئی کسی کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا، پھر بھی یکم جنوری۲۰۱۳ء سے اب تک کے گزشتہ چھ ماہ کے عرصۂ روزو شب میں بقول ناصر کاظمی: اُٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ ہو گئے کیسے کیسے گھر خالی اس دُنیاے فانی سے عالمِ جاودانی کو سدھارجانے والے ادبا، شعرا…
Read More