علامہ طالب جوہری

اُس نے مجھ سے عذر تراشے یعنی وہ یہ جان رہا تھا ایک یہی دوکان ہے جس پر کھوٹے سکے چل جائیں گے

Read More

تجدید… علامہ طالب جوہری

تجدید ….. اُس کے شہر کی ساری گلیاں، ساری سڑکیں نیند میں ڈوبی برف کی موٹی چادر اوڑھے اُونگھ رہی تھیں بوڑھے چرچ کی نا آسودہ، پُراسرار عمارت کہر میں لپٹی صدیوں کے اوہام سجائے ہر آہٹ پر کان لگائے جاگ رہی تھی اور مَیں آتش دان کے آگے کرسی رکھ کر شام سے بیٹھا سوچ رہا تھا ساری یادیں، سارے آنسو ساری ہجر زدہ رومانی نظمیں آتش دان کے انگاروں پر پھینک کے گھر واپس جاؤں گا

Read More