خزاں کی رُت میں شجر سبز ہونے والا نہیں
جو راکھ ہو گیا گھر، سبز ہونے والا نہیں
بھلے تو خونِ جگر دے وفا کے پودے کو
یہ بات طے ہے کہ سرسبز ہونے والا نہیں
یقین ٹوٹ گیا ہے، بھروسہ ختم ہوا
یہ برگ بارِ دگر سبز ہونے والا نہیں
یہ کوے یوں بھی درختوں سے بغض رکھتے ہیں
کہ ان کا ایک بھی پر سبز ہونے والا نہیں
گھرا ہوا ہوں درختوں میں اور جانتا ہوں
میں ان کے زیرِ اثر سبز ہونے والا نہیں
میں اپنے اشک کہیں اور کیوں نہ ہدیہ کروں
یہاں پہ کچھ بھی اگر سبز ہونے والا نہیں
یہ میرا دل بھی ہے دیمک زدہ درخت ذکی
یہ سوکھ جائے گا پر سبز ہونے والا نہیں