اُس کی شناخت اُس کے خیالات سے بھی ہو ۔۔۔ سید علی مطہر اشعر

اُس کی شناخت اُس کے خیالات سے بھی ہو
وہ آشکار اپنی کسی بات سے بھی ہو

ہم اتفاق کیسے کریں اُس کی رائے سے
جب منحرف وہ اپنے بیانات سے بھی ہو

ممکن ہے پیش رفتِ قیامِ سکوں کے بعد
اُس کا کوئی مفاد فسادات سے بھی ہو

پابندیِ وفا مری میراث ہی سہی
کوئی اُمید اُس کی مگر ذات سے بھی ہو

اُس شخص کو مزید پرکھنے کے واسطے
کچھ دن گریز خوئے مدارات سے بھی ہو

چہرے بھی پڑھتے رہیے کتابوں کے ساتھ ساتھ
کچھ استفادہ صورتِ حالات سے بھی ہو

اُس پر تو فرض ہے طلبِ انتہائے عشق
نسبت جِسے قبیلہِ سادات سے بھی ہو

اشعر بیانِ عشقِ بتاں میں بطورِ خاص
اک اقتباس ہجر کے اوقات سے بھی ہو

Related posts

Leave a Comment