سید آل احمد ۔۔۔ ہم اہلِ دل نے نہ دیکھے بسنت کے لمحے

ہم اہلِ دل نے نہ دیکھے بسنت کے لمحے
کھلے نہ پھول کبھی خواب میں بھی سرسوں کے

عجیب مرد تھے زنجیرِ کرب پہنے رہے
کنارِ شوق کسی شاخِ  گل کو چھو لیتے

اُفق پہ صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے
ستارے ڈوب چکے‘ مشعلیں بجھا دیجے

مرے خدا ! مری دھرتی کی آبرو رکھ لے
ترس گئی ہیں نئی کونپلیں نمو کے لیے

مری وفا کے گھروندے کو توڑنے والے!
خدا تجھے بھی اذیت  سے ہمکنار کرے

بجھی نہ پیاس کبھی تجربوں کے صحرا میں
تمام عمر سفر میں رہے ہیں سپنوں کے

یہ اور بات کہ سروِ سہی تھے شہر میں ہم
جو پستہ قد تھے وہی لوگ سربلند ہوئے

ترے لبوں پہ ترے دل کا آئنہ دیکھا
تعلقات کسی طرح تو برہنہ ہوئے

گداز جسم کی قربت  میں اتنی لذت تھی
ہم احترام کے اسباق سارے بھول گئے

وہی درخت گرے منہ کے بل  زمینوں پر
جنہیں غرور نے پاگل کیا تھا موسم کے

میں آئنے میں خدوخال کس کے پہچانوں
گئی رُتوں کے‘ رواں عہد کے یا فردا  کے

بڑے   خلوص سے جس ذہن کو سنوارا تھا
وہی صلیب کی زینت بنا رہا ہے مجھے

سکوت سے تو پرندے بھی ڈرنے لگتے ہیں
زمیں کے حبس کوئی انقلابِ تازہ دے

گزر گئے ہیں برس صبح کی صلیبوں پر
جو ہو سکے تو شبِ زندگی عطا کر دے

تمام رات درِ اشتیاق وا رکھا
کٹی نہ شب تو ستاروں سے بات کرتے رہے

Related posts

Leave a Comment