بے تاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا
جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا
پودا ستم کا جس نے اس باغ میں لگایا
اپنے کیے کا اُن نے ثمرہ شتاب دیکھا
دل کا نہیں ٹھکانا بابت جگر کی گم ہے
تیرے بلاکشوں کا ہم نے حساب دیکھا
آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت
اُس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا
لیتے ہی نام اُس کا سوتے سے چونک اُٹھے ہو
ہے خیر میر صاحب! کچھ تم نے خواب دیکھا!