وہ جب رونا بھول گیا تھا
دریا رستہ بھول گیا تھا
مٹی تھی میثاق پہ قائم
پانی وعدہ بھول گیا تھا
صرف اک صورت یاد رہی تھی
باقی دنیا بھول گیا تھا
آئینہ تو لے آیا تھا
چہرہ لانا بھول گیا تھا
جاں بخشی بھی ہو سکتی تھی
مَیں، چُپ رہنا بھول گیا تھا
یوں تو اک آواز تھا مَیں بھی
لوٹ کے آنا بھول گیا تھا
ایک دیا تھا مَیں بھی لیکن
جل کر بجھنا بھول گیا تھا
بستے میں ہر شے رکھی تھی
بچپن رکھنا بھول گیا تھا
پھر وہ رات بھی آئی سیفی!
سو کر اٹھنا بھول گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعہ کلام: الست
کاغذی پیرہن، لاہور
اکتوبر ۲۰۰۴ء