الائو کے گرد بیٹھی رات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجب طلسمِ ذات و کائنات ہے
خمار سا بھرا ہُوا ہے چار سُو
پیالہ سا دھرا ہُوا ہے آسماں کے رُوبرُو
اور اُس کے لب سے چھو رہے ہیں ماہتاب
چھلک رہی ہیں شاخچوں سے کونپلیں، نئی نئی
اتر رہے ہیں چومنے کو آفتاب
دشائیں ہیں اور اُن میں کہکشائیں ہیں
اور اک طرف کو ریگِ سُرخ ہے بچھی ہوئی
سمے کے زرد پاؤں سے نشاں ہیں کچھ بنے ہوئے
اور اُن سے دورخاک پر مکان ہیں
وہ جن میں ایک عمر سے کوئی بھی رہ نہیں رہا
مگر یہ کیسا شور ہے؟
اور اِس میں کیسے گیت کی ہے لَے چھڑی ہوئی؟
عجب طلسمِ ذات و کائنات ہے
الاؤ ہے جلا ہُوا
اور اس کے گرد اک طویل رات ہے
ابھر رہی ہے بطنِ شب سے اک عجیب داستاں
کسی نئے جہان کی