تبسم کاشمیری … پانچواں چراغ

پانچواں چراغ …………….. سب کچھ میرے اندر اندر ہے اندر ہی اندر صوفیوں کے مقبرے، درویشوں کے رقص شاہ حسین اور بلھے شاہ کی کافیاں میاں محمد بخش کی درگاہ کا انجذاب اور لال شہباز کے چار چراغ میرا جھومتا ہوا وجود صوفیوں کا پلایا ہوا نہ ٹوٹنے والا نشہ میں اپنے اندر اندر چلتا ہوں دھوپیں، بارشیں پٹ جھڑ کی پیلی سہ پہریں سرما اور سرما کی مہمان نواز پیلی دھوپیں اور گرما میں ٹھنڈے سایوں کے چھجے سب کچھ میرے اندر ہے بادل، دھوپیں، سائے اور بارشیں پت…

Read More

ازلا نیگرا ۔۔۔ پابلو نیرودا (ترجمہ: تبسم کاشمیری)

ازلا نیگرا(پابلو نیرودا) ترجمہ: تبسم کاشمیری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفید جھاگ، ازلا نیگرا میںمارچ کا مہینہیہ جھاگ کم زور کر رہی ہےسمندر کے بے پایاں پیالے سے لبالب ہو کرچھلکتے ہوئے پانیوں کومتقاطع ہوتے ہوئے پرندوں کیطویل سست پروازیںاور یہاں نمودار ہوتا ہے زرد رنگمہینہ تبدیل کرتا ہے اپنا رنگاور میں ہوں پابلو نیرودامیں ابھی تک پہلے جیسا ہی ہوںمیرے پاس ہے محبت، شبہاتاور کچھ واجب الادا قرضےاور میرے پاس پھیلا ہوا سمندر ہےلہر در لہر بڑھتے ہوئے اس کے کارکنمیں ہوں اتنا بے چینکہ ظہور میں نہ آئی ہوئی قوموں تکجا پہنچتا ہوںمیں…

Read More

تبسم کاشمیری … اداسی کے درمیان

اداسی کے درمیان …………………. مفتوحہ ہوا اور رنجور پرندے کی اداسی کے درمیان میرا دل جھیل کی طرح تھا جس پر بارش برستی تھی مچھیرے مچھلیاں پکڑتے تھے اور کشتی بان کشتی چلاتے تھے مفتوحہ ہوا اور رنجور پرندے کی اداسی کے درمیان میرا دل جھیل کی طرح تھا جس پر زمانے تیر رہے تھے ایک نوزائیدہ ستارہ پھڑ پھڑا رہا تھا ایک لڑکی دھوپ کے لباس میں چل رہی تھی اور رات ایک موم بتی اٹھائے تمہارے لئے گیت لکھ رہی تھی! ………………………………

Read More

تبسم کاشمیری … دو جنگلی کبوتر

دو جنگلی کبوتر ……….. ہم دو جنگلی کبوتر ساتھ ساتھ اڑتے کبھی نزدیک کبھی دور کبھی اوپر کبھی نیچے کبھی ہنستے گاتے، کبھی گیت سناتے کبھی زمین کی طرف جھانکتے اور کبھی آسمان کی کھڑکی کھولتے چاند سے ہاتھ ملاتے اور بادلوں کو پیار کرتے ہیں ہم ہر روز اڑتے ہیں ہر روز سرما کی دھوپ میں نہاتے ہیں اور ہر روز ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں ہم دو جنگلی کبوتر آسمان کے بستر پر ساتھ ساتھ سونے والے ہم سوچتے ہیں کہ زمین کی طرف اترنے والی کھڑکی…

Read More

تبسم کاشمیری ۔۔۔ ایک لمبی کافر لڑکی

ایک لمبی کافر لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وادی کی سب سے لمبی لڑکی کے جسم کے سب مساموں سے ریشم سے زیادہ ملائم اور نرم خموشی میں گھنٹیوں کی آوازیں آ رہی تھیں برکھا کی اس نم زدہ رات میں جب اس کے جسم پہ قوسِ قزح چمکی تو گھنٹیاں تیز تیز بجنے لگیں مرے کانوں میں آہٹیں آ رہی تھیں دھند سے بھی نرم اور ملائم بادلوں کی دبے پائوں آہٹیں وہ جب ریشم کے کچے تاروں سے بنی ہوئی رات کے فرش پر لیٹی تو قوسِ قزح اور بھی شوخ…

Read More