دل کا ہر ایک ناز اٹھانا پڑا مجھے
اُس بے وفا کی دید کو جانا پڑا مجھے
دنیا کو اپنا آپ دکھانے کے واسطے
گنگا کو الٹی سمت بہانا پڑا مجھے
شہرِ وفا میں چار سو ظلمت تھی اس قدر
ہر گام دل کا دیپ جلانا پڑا مجھے
صحرا سرشت جسم میں صدیوں کی پیاس تھی
دریا کو اپنی سمت بلانا پڑا مجھے
دیوانگی کو جب مری رستہ نہ مل سکا
سوئے دیارِ عاشقاں جانا پڑا مجھے
اقرار کر لیا تھا ہزاروں کے درمیاں
سو عمر بھر وہ عہد نبھانا پڑا مجھے
دل کے نگر میں خواب اُترتے تھے اس قدر
اک شہر آرزو کا بسانا پڑا مجھے
شوقِ نموئے عاشقی بھی بے ثمر رہا
اس انجمن سے رائیگاں جانا پڑا مجھے
آصف! دیارِ شوق میں ایسا ہجوم تھا
خود کو بھی راستے سے ہٹانا پڑا مجھے