دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں
آنا پڑا ہے جس بھی رعایت سے آئے ہیں
ہم نے کبھی پروں کو منقّش نہیں کیا
جتنے بھی رنگ آئے ہیں قدرت سے آئے ہیں
سر سے نہ کھینچ سایۂ دیوارِ دلبری
اے دھوپ! ہم یہاں بڑی حسرت سے آئے ہیں
سو حاجتیں ہیں‘ اب کہاں تفصیل میں پڑیں
فی الوقت اور ہی کسی حاجت سے آئے ہیں
پھر جشنِ رقص ‘ وہ بھی ہمارے ہی نام پر
اور ہم گزر کے کیسی قیامت سے آئے ہیں
Related posts
-
قمر جلالوی ۔۔۔ جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
چھوٹ سکتے ہی نہیں طوفان کی مشکل سے ہم جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو
چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو جو بے اصول ہو، کب چاہئیں... -
غلام حسین ساجد ۔۔۔ جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
غزل جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی...