سید آل احمد ۔۔ موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے

موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے
ہم زاد مرا قلب کا سادہ بھی بہت ہے

نفرت بھی محبت کی طرح کرتا ہے مجھ سے

وہ پیار بھی کرتا ہے رُلاتا بھی بہت ہے

وہ شخص بچھڑتا ہے تو برسوں نہیں ملتا

ملتا ہے تو پھر ٹوٹ کے ملتا بھی بہت ہے

خوشحال ہے مزدور بہت عہدِ رواں کا

ماتھے پہ مگر اُس کے پسینہ بھی بہت ہے

برسا ہے سرِ دشتِ طلب اَبر بھی کھل کر

سناٹا مری روح میں گونجا بھی بہت ہے

تم یوں ہی شریک ِغمِ ہستی نہیں ٹھہرے

سچ بات تو یہ ہے تمہیں چاہا بھی بہت ہے

اُٹھتی ہی نہیں آنکھ حیا سے کبھی اُوپر

دوپٹہ مگر سر سے ڈھلکتا بھی بہت ہے

ہر دُکھ کو تبسم میں اُڑا دیتا ہے احمدؔ

بچوں کی طرح پھوٹ کے روتا بھی بہت ہے

Related posts

Leave a Comment