ترے اندازِ پا میں نغمگی تھی
مری آنکھوں کی رنگت بولتی تھی
اُداسی، رات بستر سے نکل کر
مرے گھر کی تلاشی لے رہی تھی
تری آواز میرے پاس بیٹھی
کئی الجھے سِرے سلجھا رہی تھی
وہ میلہ دیکھنے نکلا تھا گھر سے
مگر آنکھوں میں وحشت بھر گئی تھی
رواں رکھنا تھا طبعِ خوش گماں کو
ندی کی بند مُٹھی کھولنی تھی
یہاں بارش میں بچپن کھیلتا تھا
اُدھر کاغذ کی نائو ڈوبتی تھی
اتر جاتی ہے اب چپ چاپ دل سے
یہ دنیا کل تلک کتنی نئی تھی
مرے بچے یہ مجھ سے پوچھتے ہیں
کہ سچ میں کوئی ایسی جل پری تھی!