توقیر عباس ۔۔۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی تاریخ کے دائرے

ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی تاریخ کے دائرے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحقیق کا سب سے مہتمم بالشان کام کسی پورے ادب کی تاریخ لکھنا ہے۔ اس سے کہیں بڑا کام ذاتی تشخص کی نفی کرکے مؤرخانہ طبیعت کی تشکیل ہے ۔ تاریخ میں مؤرخ کے جذبات، خیالات اور افکار کا کہیں بھی در آنا، تاریخ کو متاثر کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ زبان کا استعمال بھی تاریخ کے کسی واقعے کو کوئی بھی معنی پہنا سکتا ہے ۔جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ تنقید، تحقیق، تدوین اور ادب کی زبان کیسی ہونا چاہیے تو جواب میں صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ تحقیق اور تنقید میں زبان اور لب و لہجہ دوٹوک ہونا چاہیے، علامتی پیرایہ نہ ہو ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ باتیں ہیں جو زبان کو کسی خاص علم کی زبان بناتی ہیں ۔ جیسےتحقیقی زبان میں، تحقیق کی اصطلاحوں میں باتیں کی جائیں تو پڑھنے والا فورا سمجھ جاتا ہے کہ یہ تحقیق کی زبان ہے ۔ تنقید لکھتے ہوئے اگر تنقیدی اصطلاحات کا برمحل اور پورے سیاق و سباق سے استعمال ہو تو وہ تنقیدی زبان کہلا سکتی ہے ۔ فزکس کی باتیں کیمسٹری کی اصطلاحوں کے ساتھ بیان کریں تو وہ کیمسٹری کی زبان کہلائے گی، فزکس کی ہرگز نہیں۔اسی طرح ادبی تاریخ نویسی میں، زبان کو دو ٹوک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ایام کی تاریخیں، دن مہینے سال، حسب نسب، اصنافِ ادب اور ادبی اصطلاحات سے واقفیت ازحد ضروری ہے ۔ جن کے بغیر ادبی تاریخ لکھنا کچھ مشکل کام ہے ۔ مؤرخ کو کئی علوم، دیگر تواریخ اور زبان پر گہری دسترس ہو تو تاریخ نویسی کا کام کر سکتاہے کیونکہ تاریخ کے دائرے  میں محض واقعات کا انبوہ نہیں ہوتاہے ۔ واقعات کو منطقی ربط دینے کے لیے فلسفہ اور منطق، ادب کے سماجی تفاعل کے لیے سوشیالو جی سے آشنائی، تہذیب اور ثقافت میں بنیادی فرق کا علم ہونا،کیونکہ بیشتر تواریخ میں ان کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر برتا گیا ہے، ایک اور وجہ بھی ہے کہ ادبی تاریخ لکھنے کا مطلب کسی قوم کی ثقافت کو عالمی سطح پر پیش کرنا ہے،شخصی تجزیے کے لیے نفسیات سے آگاہی اور اس کے ساتھ ساتھ، مختلف قسم کی تواریخ، جو اس تاریخ کے متوازی چل رہی ہوتی ہیں، ان کا گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ان تواریخ کے اثرات سے کسی مخصوص تاریخ کو بچاکر لکھنا محال ہے ۔ ایک تاریخ کی تہہ میں ڈھیروں تاریخیں پوشیدہ ہوتی ہیں ۔ مثلا اُردو میں "بھگتی تحریک” کے اثرات کے ساتھ تصوف کی پوری تاریخ جڑی ہوئی ہے ، پھر "اسلامی تصوف” کی اصطلاح اور اس کی تاریخ بھی موجود ہے ۔ہندوستان میں صرف اردو اور فارسی کے شعرا کی تعددِ ازدواج کی تاریخ مرتّب کریں تو ہمیں بہت سی ذاتوں، قبیلوں اور قوموں کی تاریخ بھی مرتّب کرنا پڑے گی۔ درباری شعراء کے ذکر کے ساتھ سیاسی تاریخ کا ذکر بھی لازمی ہے، برِصغیر میں اُردو زبان کی تاریخ کے ساتھ کئی قسم کی جنگوں کا احوال بھی شامل ہے۔ اردو کی ادبی تاریخوں میں تو چھوٹی موٹی جنگوں اور ریاستوں کے ایک دوسرے پر حملوں کے واقعات بھی ملتے ہیں۔ تاریخ کوئی بھی ہو، تاریخ نویسی میں کن تاریخوں کو اس سے جدا رکھنا ہے، مؤرخ کا اصل کام ہے ۔ زبان کی ابتدا اور افزائش کے باب میں، مؤرخ کی ایک مجبوری غیر ادبی تحریر کو بھی ادب کی ذیل میں شامل کرنا ہے۔ حالانکہ ادب کی تاریخ میں غیر ادبی تحریر کا لانا گویا ادبی تاریخ کے منہاج سے ہٹنا ہے ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ادب کے عالمِ باعمل محقق تھے ۔جن کے کام کے حدود ادبی تاریخ، تدوین، تحقیق اور ترجمے تک پھیلے ہوے ہیں۔ اُن کی زندگی کے منہاج پر یہی ثبت نشان ان کا حاصل ٹھہرتے ہیں ۔ اُن کا بڑا فکری دائرہ "تاریخِ ادبِ اردو” بنتا ہے جس میں کئی دیگر لہریں چھوٹے بڑے دائرے بناتی ہوئی اپنی الگ شناخت بھی رکھتی ہیں۔ممکن ہے کہ میرا نشانہ درست نہ بیٹھے ، اسے میری طالب علمانہ جسارت کی مد میں سمجھیے گا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی محکمہ انکم ٹیکس میں شمولیت سے یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بننے تک،کئی اعلی عہدوں پر فائز رہے۔ یہ سنگ ہائے میل مجھ پرمحض ’’داتا دربار سے بھاٹی ایک میل ‘‘جیسی کیفیت پیدا کر سکتے ہیں ،لیکن جب میں "تاریخِ ادبِ اردو” کی طرف پیش قدمی کرتا ہوں اورڈاکٹر جمیل جالبی مجھے بتاتے ہیں کہ آتشی شیشے کی مدد سے مخطوطات پڑھ پڑھ کر، آنکھوں پر موٹا چشمہ چڑھ گیا تو ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے پورے قدو قامت کے ساتھ، بہتر ین محقق اور مدون کی حیثیت سے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ مجھے ان کے نماز روزے اورکردار کی خوبی ومحبوبی کا بھی علم نہیں ہے لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں: میرے جنون اور علم و ادب کے عشق نے ، ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز کر کے، یہ جوئے شیر مجھ سے ہنسی خوشی کھدوائی ہے تو مجھے اس نعرہ مستانہ کا احساس ہوتا ہے جو کبھی کبھی کوئی درویش حقیقت کو سامنے پا کر، حالتِ جذب میں بلند کرتا ہے اور پھر ایک تلذذِ بے پایاں میں کھو جاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں ہے کہ انھوں نے اس تاریخ کو لکھتے ہوئے عیار اور ٹکسال پر زور دیے رکھا اور استناد کے لیے، اصل مخطوطوں کی قرات اور چھان پھٹک کی اور معاصر عہد کے جدید قواعد کی روشنی میں ادبی تاریخ کو درست سمت دینے کی بہتر کوشش کی۔
بقول جواد زیدی ’’آج تک اردو ادب کی اردو میں تاریخ نہیں لکھی گئی۔‘‘یہ با ت ہر عہد میں لکھی جانے والی ادبی تاریخ پر صادق آتی رہے گی۔امریکہ کی ماڈرن لینگوئج ایسوسی ایشن ( M.L.A) نے تحقیقی علمیت کے چار شعبے گنوائے ہیں:
۱۔ لسانیات
۲۔ متنی تنقید ( تدوینِ متن)
۳۔ ادبی تاریخ
۴۔  ادبی تنقید
تحقیق کے یہ چار شعبے 1970ء میں قائم کیے گئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے ۔ لیکن ان میں سے ہر شعبے کے ساتھ اور بھی کئی لوازمات ہیں ۔ جن کے بغیر ان شعبوں میں پُر وقیع کام نہیں ہو سکتا ہے ۔تمام ادبی تاریخوں کی چھان پھٹک کریں تو کچھ محض سادہ تاریخیں، کچھ سوانحی، کچھ تنقیدی اور کچھ زمانوں اور دبستانوں میں بٹی تاریخیں نظر آتی ہیں، کیا کسی وزیر یا بادشاہ کے بدلنے سے ادبی تاریخ بدل سکتی ہے۔ اگر بدلتی ہے تو کن نئے رجحانات اور زاویہ ہائے نظر کو سامنے لاتی ہے۔کیا ادبی تاریخ کا مذہب، رسوم و رواج اور اس وقت کے افکاربھی حصہ بنتے ہیں۔ کیا مذہبی متون بھی ادب کا حصہ ہوتے ہیں۔کیا وہ کسی ادبی تاریخ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اردو ادب کے تناظر میں دیکھیں تو بیشتر تاریخیں شعر کی ہیں، شعر میں بھی غزل کی حد تک اور غزل ہی کی بنیاد پر اَدوار بندی ملتی ہے ۔ادب کی تاریخ میں ادب کی جگہ ہی ہو سکتی ہے جب کسی زبان کی تاریخ ہو تو پھر اس میں اس زبان سے متعلق تمام شعبوں کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
کسی بھی خطے کی تہذیب، ثقافت، معاشرت، سیاست اور تمدن کے اسباب وعلل کی روشنی میں اس واقعے سے حاصل شدہ نتائج ادب کی تاریخ کہلاتے ہیں ۔واقعات تاریخ اس وقت بنتے ہیں جب ان کے باہمی تعلقات کو سمجھ کر انھیں ایک رشتے میں اس طرح پرو دیا جائے کہ یہ ارتقا کے مسلسل عمل کی نشان دہی کرنے لگیں۔ بیشتر اردو کی ادبی تواریخ میں زبان کے ارتقا میں تہذیبی، ثقافتی، سیاسی، سماجی اور سیاسی تناظر کے تحت سرخیاں موجود ہیں لیکن کسی مؤرخ نے تہذیب اور ثقافت کی اصطلاحوں کو اپنے اصطلاحی و معنوی اختصاص کے ساتھ نہیں برتا ہے بلکہ محض متبادل کے طور پر ان کو سمجھا گیا ہے ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی تمہید ہی میں کہیں کہیں خود تضاد پیدا کرتے ہیں، اپنی کہی بات کی نفی کرتے ہیں ۔ ایک جگہ تمہید میں کہتے ہیں: ’’یہ بات ہمارے موضوع سے خارج ہے کہ اس زبان کا کپڑا کس دھاگے سے بنا گیاتھا، یہ دھاگا کس علاقے کی روئی سے تیار ہوا تھااور یہ روئی کس کھیت میں تیار ہوئی تھی۔‘‘ بظاہر یہ جملے ادبی لطافت کے حامل اور شاعرانہ ہیں اور انھیں پڑھ کر قاری بہت حظ اٹھاتا ہے لیکن اگلے جملے اس لطف کو مکمل غارت کر دیتے ہیں ۔جس بات کو خارج از موضوع قرار دے رہے ہیں اسی بات کوزیرِ بحث لا کر ،اپنی اسی بات کو اب شاعرانہ انداز کے بجائے دو ٹوک اور حتمی اندازمیں رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں:’’ اردو ۔۔۔ جدید ہند آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور عربی، ایرانی اور ہندی تینوں تہذیبوں کا سنگم اور ان کی منفرد علامت ہے۔‘‘ یہ صحافیانہ انداز ہے، کہاں یہ انکساری کہ زبان کا کپڑا کہاں کس دھاگے اور روئی سے تیار ہوا اور کہاں یہ فتویٰ کہ اردو زبان عربی ایرانی اور ہندی تہذیبوں کا سنگم ہے۔ تاریخ کا ایک معمولی قاری اس سے بڑھ کر ایک بات کر سکتا ہے کہ اردو زبان عربی، ایرانی ہندی اور انگریزی تہذیب کا سنگم ہے ۔ آخر انگریز بھی یہاں دو صدیوں تک حاکم رہے۔ ان کے پاس تو تہذیب بھی تھی اور مضبوط کلچر بھی۔ پھر انگریزوں ہی نے اس زبان کی ترقی و تہذیب کی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انگریزی تہذیب کے اثرات اُردو پر نہ پڑے ہوں ۔ ایک بات اور کہ روئی کی کوئی نہ کوئی قومیت ماننا پڑے گی۔ جمیل جالبی "تاریخ ادب ِ اردو: جلد اول” کے دیباچے میں خود کہتے ہیں:’’ساری تصنیف کو ،ترتیبِ زمانی سے چھہ فصلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر فصل کے تحت مختلف ابواب آتے ہیں، ہر فصل کا پہلا باب پورے دور کی تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔جس میں اس دور کی تہذیبی، معاشرتی اور ادبی و لسانی خصوصیات کو اجاگر کیا گیا ہے تا کہ پڑھنے والے کے سامنے اس دور کی پوری تصویر آ جائے۔‘‘ ایک بات واضح ہو گئی کہ انھوں نے ہر فصل کی ابتدا میں تمہید کی جو سرخی جمائی ہے وہ اس عہد کی تہذیبی، معاشرتی اور لسانی و ادبی خصوصیات کی تصویر ہے ۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ قدم قدم پر سیاسی حالات بھی بیان کرتے ہیں اور کہیں کہیں تہذیب کی جگہ لفظ کلچر کا بھی تڑکہ لگاتے ہیں۔ لاکان نے درست کہا تھا کہ تاریخ جس قسم کی بھی ہو اس میں مخصوص سیاسی عزائم اور تعصبات دَر آتے ہیں اور ان سے بچنا تقریبا ناممکن ہے۔
پہلی فصل کی تمہید سے چند ایک حوالے پیش کرنا ضروری ہیں:’’مسلمان جب برِصغیر میں داخل ہوئے تو ترکی ،عربی اور فارسی بولتے آئے اور جب ان کا اقتدار قائم ہوا تو فارسی سرکاری زبان ٹھہری۔ تاریخ شاہد ہے کہ حاکم قومیں اپنی زبانیں اور کلچر ساتھ لاتی ہیں اور محکوم قومیں جن کی تہذیبی و تخلیقی قوتیں مردہ ہو جاتی ہیں، اس زبان اور کلچر سے اپنی زندگی میں نئے معانی پیدا کر کے، نئے شعور اور احساس کو جنم دیتی ہیں‘‘۔’’مسلمانوں کا کلچر ایک فاتح قوم کا کلچر تھا‘‘ (ص 2: تاریخِ ادبِ اردو)۔میخائل اورن بی اپنی شہرہ آفاق کتاب Power faith and fantasy میں لکھتا ہے: ’’عرب کے ساحل گندگی کے ڈھیر تھے، شہروں میں اندھے پن کی بیماری تھی، گلی محلے بدبودار اور گندگی سے اَٹے تھے، لوگ بدبو دار کپڑوں میں گھومتے تھے‘‘۔ میں نے اُردو کی ادبی تاریخوں میں لفظ ثقافت اور تہذیب اور سماج کی بھرمار دیکھی ہے لیکن کسی مؤرخ نے کہیں بھی نہ متن میں نہ حاشیے میں، ثقافت کے کسی اختصاص کی نشان دہی کی ہے ۔ بیشتر ادبی مورخین پر الف لیلیٰ کا سحر طاری ہے ،جس میں ہر طرف نفاست، مصفا فضا اور طلسمی صاف ستھرے محلات کی تصویریں نظر آتی ہیں۔
محمد بن قاسم یا سلطان محمود غزنوی یہاں کون سے فنکار ادیب، شعرا اورمصور لایا تھا۔ جن کو ہم ثقافتی اظہار کی مثال کے طور پر پیش کر سکیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم تصور میں الف لیلوی شاہانہ زندگی کی جھلکیاں دیکھ کر، اس کا اطلاق عام لوگوں کی زندگیوں پر بھی کرتے ہیں۔ محمد بن قاسم کے ساتھ جو فوجی تھے، وہ مصری اور شامی تھے اور مکران کی سرحد پر، اسے کچھ ہزار اونٹ سوار فوجی مل گئے جن کی تعلیمی قابلیت صفر تھی۔ ثقافت محض ایک تصوراتی تصویر ہے جو اس وقت کے مسلمانوں سے ہم جوڑتے ہیں۔ جمیل جالبی خود اعلان کرتے ہیں کہ وہ زبان کے آغاز و ابتدا اور تاریخ میں نہیں الجھیں گے لیکن وہ الجھتے ہیں کیونکہ دیگر تاریخوں میں ان بحثوں کی ابتدا ہو چکی تھی۔ بقول علی جواد زیدی :’’ اب جمیل جالبی کی الجھنیں یوں نمودار ہوئیں: ’اردو کا مولد پنجاب ہے ۔ اردو زبان اپنی ابتدائی شکل میں سندھ و ملتان کے علاقوں میں بننا شروع ہوئی ۔صوبہ سرحد کے اہلِ علم ….. اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو کی جنم بھومی در حقیقت سر حد کا کوہستانی خطہ ہے ۔ بلوچستان کے ماہرین ِ تاریخ و ادب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو کی تشکیل کی ابتدا بلوچستان سے ہوئی۔ اور آخر کار یہ کہتے ہیں کہ اس زبان کا مولد ہر وہ علاقہ ہے جہاں مختلف الزبان (مختلف اللسان) لوگ مل جل رہے تھے ۔ ‘‘
ایک اور جگہ جمیل جالبی کہتے ہیں:’’ مختلف علاقوں کا قدیم اردو ادب الگ الگ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا یہ سب الگ الگ جزیرے ہیں۔ جن کے ادب و زبان کے مجموعی مطالعے کا نام تاریخ ِ ادب رکھ دیا گیا ہے ۔ میرے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں تھی کہ گجرات، دکن اور شمال کا ادب الگ الگ جزیروں کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک کا تعلق دوسرے سے کچھ نہیں۔‘‘
ان باتوں کے باوجود جمیل جالبی ادب کے جزیرے، دبستان اور علاقائی تقسیم رَوا رکھتے ہیں۔ بقول گیان چند جین’’شمالی ہند کا ادب، گجرات کا ادب اور بہمنی دَور کا ادب دراصل دَور اور علاقے دونوں کو ظاہر کرتا ہے ۔۔۔ عادل شاہی اور قطب شاہی کی تقسیم کو دَور کہنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں معاصر ہیں۔دراصل یہ علاقے ہیں۔ ضمیمے میں تو صریحاََ علاقائی جزیروں کا بیان ہے، پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان۔‘‘ تاریخوں میں اَدوار پل چھن میں نہیں بنتے ہیں اور نہ کسی ایک شخص پر ختم ہوتے ہیں۔ تاریخی ادوار، اصل میں ارتقا کو مجروح کرنے کے مترادف ہیں۔
تاریخِ ادب اردو، ان باتوں کے باوجود، دیگر تمام تاریخوں پر مقدم ہے کہ اس میں اصل ماخذات تک رسائی کی گئی ہے اور معلومات اس قدر زیادہ اور مربوط ہیں کہ جمیل جالبی کا یہ کام بڑے اداروں کے کام سے کہیں زیادہ وقیع نظر آتا ہے ۔
تاریخ نویسی اور افسانہ نویسی کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہے۔ افسانے میں کوئی تخئیلی یا دیکھا بھالا کردار ہو سکتا ہے۔ جس کی ہر جنبش اور حرکت بھرپور جواز کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کا اختتام کسی بھی موڑ پر تشکیل شدہ فطری کائنات کے مطابق ہو سکتا ہے۔ ادبی تاریخ نویسی میں بھی ہر واقعے کا جواز بے حد ضروری ہے۔ آخر اس کے کردار کبھی زندہ اور جیتے جاگتے تھے، اپنی زندگی خاص ماحول اور خاص علاقوں میں گزارتے تھے۔ وہ چلتے پھرتے، کھاتے پیتے بھی تھے، ان کے کچھ علمی اور ادبی مشاغل بھی تھے۔ کوئی زبان بھی بولتے تھے۔ اُن کی ثقافتی سرگرمیوں میں شعرو ادب، مصوری، موسیقی اور دیگر علوم بھی شامل تھے۔ مؤرخ ایسا صاحبِ اسلوب اور زبان و بیان کا ماہر ہو کہ باتصویر جملوں کی مدد سے کسی بھی مخصوص دَور کے ہولناک یا خوبصورت منظرکو پوری تفصیلات کے ساتھ اُسی دور میں سامنے ہوتا دکھا سکے اور سننے والا بھی اسی طرح پردہ ذہن پر، اس منظر کو وقوع پذیر ہوتا دیکھ سکے۔ مؤرخ ان لوگوں کو اپنے زورِ بیان سے دوبارہ زندہ کرتا ہے اور اپنی اس مسیحائی، ان کے رویوں، ان کی سماجی، لسانی اور سیاسی تبدیلیوں کا بھر پور جواز پیش کرتا ہے۔ اُن کی زندگیوں اور تحریروں سے نمود پاتی تحریکوں، یا تحریکوں کے اُن کے زبان و ادب پر مرتب ہوتے اثرات اور عہد بہ عہدتبدیلیوں کو بھی نشان زد کرتا ہے اور ان کے محرکات کو تلاش کر تا ہے ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی "تاریخ ادبِ اردو” ادبی تاریخ نویسی کے بیشتر اصولوں کی پاس داری کرتی نظر آتی ہے ۔یہاں کانٹے کی بات بھی کہتا جائوں کہ ہم آزاد کی ” آبِ حیات ” کو منفی معنی میں افسانہ طرازی کہتے ہیں جس کے بغیر کسی ادبی تاریخ کا تصور تک نہیں ہو سکتا ہے۔ تمام معتبر تاریخیں ’’آبِ حیات ‘‘ کی مرہون ہیں۔ کیونکہ ’’آبِ حیات ‘‘ دراصل تاریخ کی طرف پہلا درست قدم تھا۔
تاریخ نویسی اور خاص طور پر ادبی تاریخ نویسی محض ادبی شخصیات کی معلومات کا ڈھیر نہیں ہوتا ہے اور یہ محض واقعات کا بیان نہیں ہوتا ہے۔ تاریخ کوئی بھی ہو، اُس کے ساتھ سینکڑوں دیگر تاریخیں بھی جڑی ہوتی ہیں، مورخ اُن سب کا ماہرانہ استعمال کرتا ہے اور اپنی تاریخ کو خاص منہاج پر قائم رکھتے ہوئے کسی خاص عہدکو پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے ۔ اسی طرح ادبی تاریخ کے ساتھ کئی دیگر علوم بھی جڑے ہوتے ہیں جن کے بغیر ادبی تاریخ لکھنے کا تصور تک ممکن نہیں۔ اِس کے لیے عہد بہ عہد کے تنقیدی نظریات، سماجی اور ثقافتی صورتِ حال، لسانیات ، متنی تنقیداور علمِ لغت پر خاص مہارت ضروری ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی اسی ادبی تاریخ کے نتیجے میں، انھی علوم سے متعلق دیگر کتب بھی سامنے آئیں۔ اُن میں’’قدیم اُردو کی لغت‘‘، تدوینی کام کی صورت میں ’’مثنوی کدم رائو پدم رائو ‘‘ ، ’’کلیاتِ میرا جی‘‘، ’’دیوانِ حسن شوقی‘‘ ، اور ’’یوانِ نصرتی‘‘، مختلف ادوار کے تنقیدی نظریات کی صورت میں’’ ارسطو سے ایلیٹ تک ‘‘ ، ’’ نئی تنقید ‘‘ ، ’’ تنقید اور تجربہ ‘‘ اور ’’پاکستانی ثقافت ‘‘ جیسی کتب شامل ہیں۔ ہم ڈاکٹر جمیل جالبی کو ماہرِ علم اللسان Philologist کہہ سکتے ہیں۔ علم اللسان Philology کو عروج، اسلام کے سنہری دور میں ملا، بعد میں جس کی طرف پیش قدمی یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں ہوئی۔
تدوینِ حدیث میں روایت اور راوی کی بہت اہمیت ہے۔ جہاں کسی حدیث کا بنیادی راوی صرف ایک ہو، اس حدیث کو ضعیف سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح جہاں مخطوطہ صرف ایک ہو اورناقص الاول اور ناقص لآخر ہو تو اس کے بارے میں ضعفِ یقین پیدا ہونا بہت فطری ہے۔
"مثنوی کدم رائو پدم رائو” جس کا پوری دنیا میں صرف ایک نسخہ ہے، کو اُردو زبان کے ذیل میں بھی رکھنا مشکل ہے۔ اُس کی زبان اور بیان میں ہندوستان کی کسی بھی دوسری زبان کے گہرے اشتراک اورمماثلات کی اُردو زبان سے کہیں زیادہ نشان دہی کی جا سکتی ہے ۔ یہ ایسی مثنوی ہے جسے کوئی بھی مدون کسی دوسری زبان کی تاریخ کے لیے برت سکتا ہے۔ کیونکہ اس مثنوی کی زبان کو اُردو سمجھنے کے لیے جو دلائل دیے جا سکتے ہیں وہی اُس مثنوی کو پنجابی زبان ثابت کرنے کے لیے بھی دیے جا سکتے ہیں۔
"دیوانِ نصرتی” کی تدوین و ترتیب جمیل جالبی کا ایک اہم علمی کارنامہ ہے۔ تدوین ان متون کی کی جاتی ہے جن کے اظہار میں منشائے مصنف کے مطابق معذوری اور ضعف پیدا ہو جائے ۔ قدیم دَور کا رسم الخط، آج اپنے اظہار میں معذور ہے جسے پڑھنا بہت مشکل کام ہے، اس لیے پرانے مخطوطوں کی تدوین از بس بہت ضروری ہے ۔ ان مخطوطوں کی وجہ سے ادبی تاریخ کی غیب کڑیاں اور تسلسل و ارتقا دیکھنا ممکن ہو سکتا ہے اس لیے پرانے مخطوطوں کی تدوین آیندہ لکھی جانے والی تاریخوں میں بہت زیادہ معاون ثابت ہوگی۔
بطور ماہرِ زبان Philologist ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’’ قدیم اردو لغت‘‘ ایک بڑی خدمت ہے۔ اردو چونکہ کئی زبانوں کے الفاظ کا مرکب ہے، اس لئے یہاں تقابلی علم اللسان کی شدید ضرورت ہے۔ اردو میں Comparative Philology اور Classical Philology کے ماہر کے طور پر صرف جمیل جالبی کا نام لے سکتے ہیں ۔ جنھوں نے کم از کم ہندوستان کی بیشتر زبانوں کو کلی طور پر نہ سہی، لفظوں کی حد تک سمجھنے کی کوشش ضرور کی۔ وہ لوگ تو گزر گئے جو کسی کا جملہ سن کر بتا دیا کرتے تھے کہ وہ جامع مسجد دلی کا باسی ہے کہ حویلی حسام ا لدین کا رہائشی ہے یا نیل کٹڑے میں نیل بیچتا بنیا ہے۔
نئی تنقید میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے مغربی خوشہ چینی کے بجائے، خود اپنے تنقیدی شعور کے خدوخال اُبھارنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب نئی تنقید کا New Criticism سے کوئی خاطر خواہ تعلق نہیں بنتا ۔ قاری اس کتاب کے مطالعے سے پریشان ضرور ہوتا ہے۔ اِس کتاب میں انھوں نے رومانیت اور جدیدیت کے کچھ ادھورے عناصر پیش کیے اور انھیں نئی تنقید قرار دیا ہے۔ آخر وہ ایلیٹ کے شیدائی تھے۔ یہ وہ نئی تنقید New Criticism نہیں ہے جس کا باوا آدم آئی اے رچرڈز ہے۔ اِس کے باوجود اس کتاب میں کئی مضامین بہت عمدہ ہیں جو ان کے بہتر تنقیدی شعور کی نشان دہی کرتے ہیں۔یہ طے شدہ امر ہے کہ اچھی تنقیدی بصیرت کے بغیر،کوئی ادبی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ایک اور خاص بات جس طرح ترجمہ کاری میں، مترجم کا متن سے وفادار ہونا بہت ضروری ہے اور کسی امکانی ترجمے سے گریز بھی، اسی طرح تاریخی وفاداری بھی مؤرخ پر لازم ہے۔ تاریخ میں تصرف کر کے کسی امکانی منظر، صورتِ حال یا اپنے خاص نظریہ کی پروموشن بھی ادبی تاریخ کو مجروح کرتی ہے۔
جس وقت جمیل جالبی "تاریخِ ادبِ اردو” تحریر کر رہے تھے ، تب تاریخ میں سماجی و ثقافتی صورتِ حال کو بہت اہمیت دی جاتی تھی، اس وقت مغرب میں ماحولیات اور ماحولیاتی تنقید کی بھی باتیں ہو رہی تھیں؛ لیکن جس خطے کے ہم باسی ہیں یہاں اُس وقت تک ماحولیاتی تنقید کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اِسی ادبی تاریخ کے ضمن میں سماجی، تہذیبی اور ثقافتی صورتِ حال کی باتیں ضرور ہو رہی تھیں لیکن تہذیب اور ثقافت کو ایک ہی معنی میں برتا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے "پاکستانی ثقافت” میں تہذیب اور ثقافت میں بنیادی فرق کی وضاحت کی، اگر چہ "تاریخِ ادب ِ اردو” میں کئی مقامات پر تہذیب و ثقافت کا فرق قائم نہیں رکھ سکے۔ آئندہ جب کوئی شخص اردو کی ادبی تاریخ لکھے گا، وہ سماجی، تہذیب، ثقافت اور ماحولیاتی تنقید کی الگ الگ ابواب بندی کے بجائے اُن کے امتزاج سے ہی اپنی تاریخ مرتب کرے گا اور ان کا ادب کے ساتھ مکمل تفاعل دکھانے کی کوشش کرے گا۔
یہی درج بالا چھوٹے چھوٹے دائرے ہیں، جو "تاریخِ ادبِ اردو” کی دین ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے جنھیں اپنی تاریخ میں برتا اور بعد میںالگ الگ کتب کی صورت میں شایع کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment