خواب زار ۔۔۔ ڈاکٹر غافر شہزاد

خواب زار
۔۔۔۔۔۔۔

خواب زار ۔۔۔شاہدفرید کا اولین مجموعہ کلام ہے اور اس مجموعے کی اشاعت کے سلسلے میں ہی مَیں نے اسے قدرے قریب سے دیکھا ہے۔ سیدھا سادا بھلا سا نوجوان جس کی آنکھوں میں اولیں محبتوں کی جلتی بجھتی چنگاریاں روشن ہیں ۔ محبتیں کرنے والے لوگ یونہی دھیمے کیوں ہوتے ہیں ، اِن کی آواز اور لحن میں احساسِ زیاں نہیں ہوتا۔ اِن کی مٹھی سے زندگی ریت کی طرح مسلسل گرتی رہتی ہے مگر وہ مٹھی خالی ہو جانے سے بے خبر ریت میں روشن ذروں کو حاصلِ حیات سمجھ کر اطمینانِ قلب حاصل کر لیتے ہیں ۔ شاہدفریدکی شاعری میں بھی کچھ ایسا ہی اظہار جگہ جگہ بکھرا ہوا ملتاہے ۔ اس نے فن اور ذات کے اظہارکو گوندھ کر شعری پیرہن تراشاہے۔ اس پیرہن میں دلوں کو موہ لینے والا رکھ رکھائو بھی ہے ، فنکارانہ چابک دستی اور مہارت بھی ہے اور پھر یہ سچی اور کھری شاعری ہے۔ جس کی پہچان صرف یہ ہوتی ہے کہ یہ پڑھنے والوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے۔
اجتماعی معاشرتی زندگی جو اتنی پیچیدہ اور دوسروں کی اتنی رہینِ احسان ہوچکی ہے کہ ایک پل بھی دوسرے کی مدد اور تعاون کے بغیر گزرنا مشکل ہے مگر خواب ۔۔۔ ایک ایسا تجربہ ہے جس میں سے انسان کو تنہا گزرنا پڑتا ہے اور خوابوں میں کسی دوسرے کی شمولیت کے لیے اس کی اجازت اور میسر آنے کی مجبوری شامل نہیں ہوتی ۔ آج کی مار دھاڑ اور تیز رفتار زندگی کے چاک پر ریل کے پہیے کی طرح گھومتی زندگی کی پٹریوں کی رگڑ اور شور میں خواب کا تجربہ بہت کم لوگوں کے حصے میں رہ گیا ہے۔اور شاہد فرید اُن لوگوں میں سے ہے جو آٖ ج بھی اپنے خوابوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
اکیلے خواب دیکھنے کے عمل سے گزرتے ہوئے اس کی شاعری میں تنہائی اور اُداسی کا آسیب در آیا ہے۔ اِس وقت جب وہ عمر کے اس حصے میں ہے جہاں کچی پکی خواہشوں کی آسودگی کے ہزار سامان دل کو معطر کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ وہ اداسی کے بادلوں میں تیرتا نظر آتا ہے۔یہ تنہائی اور اداسی آج کی نوجوان نسل کی رگوں میں اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہے۔ شاہد فرید بھی اُن لوگوں میں سے ہے جو بھرے شہروں اور ہنگامہ خیز محفلوں میں بھی اکیلے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے کمال کے لوگ ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں نے اپنے اپنے شعبہء فن میں بڑے بڑے کمالات دکھائے ہیں ۔ پکاسو ہو، صادقین ہو یا ناصر کاظمی ۔۔۔ اِن کے ہاں اپنے دل و دماغ میں انجمنیں آباد ہو تی ہیں مگر اردگرد پھیلا مہیب سناٹا ۔ شاید یہ سناٹا تخلیقی عمل کی یکسوئی میں ممدولازم ہوتا ہے۔
شاہدفرید کا مکالمہ صرف اپنی ذات سے نہیں ہے۔ کہیں تو وہ اپنی کھوئی ہوئی محبتوں کی چنگاریاں ایک وقار اور تمکنت سے چنتا ہوا گزرتے وقت سے ، بچھڑے محبوب سے، خزاں رسیدہ درختوں سے مخاطب ہوتا ہے اور کہیں اس کا تخاطب لوگ، معاشرہ، ناانصافیاں، عدم توازن، عدم مسابقت، ظلم و جبر وغیرہ ہوتا ہے۔ اور یہی بات بڑی شاعری اور منفرد اظہار کی پہچان بنتی ہے۔

پیشے کے لحاظ سے وہ سوِل انجینئر بننے جا رہا ہے جس کا براہ راست تعلق تعمیر و اثبات سے ہوتا ہے۔ خیالات کے اظہار کا قرینہ اور سلیقہ اور لفظ معنی پر گرفت اس کو حاصل ہے۔ یقینِ واثق ہے کہ وہ اپنے پیشے میں بھی ایسے ہی اعتماد اور ذہانت سے قدم رکھے گا۔ اور جیسے اس نے اپنی ذات اور شاعری میں توازن رکھا ہوا ہے، عملی زندگی میں بھی ایسے ہی ثابت قدم ہو گا ۔ اس کے اشعار کا ایک انتخاب آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ یہ پہلی نظر کا انتخاب ہے اور جس شعری مجموعے میں پہلی نظر میں اتنے اچھے اور اتنے زیادہ اشعار مل جائیں اس کو پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتاہوں اس دعا کے ساتھ کہ شاہد فرید کا یہ اولیں پڑائو اس کے شعری سفر کا سنگِ میل ثابت ہو۔
اشعار ملاحظہ فرمائیے:

اُس نے چُومی تھیں مری پتھرائی آنکھیں
اُس کے ہونٹوں پر بھی چھالا پڑ گیا ہے

اِس لیے دور رہے تجھ سے کہ اے حاکم ِوقت!
تیرے ہر حکم کی تعمیل نہ ہو پائے گی

اپنے ہمراہ محبت کے حوالے رکھنا
کتنا دشوار ہے اک روگ کو پالے رکھنا

جیت ہر بار ہی کترا کے گزر جاتی تھی
پیار کے کھیل میں ہر بار مجھے مات رہی

جب میں ڈوبا ہوں تو سورج میرے سر پر تھا
پاس ہی ٹھہرے دیکھ رہے تھے جھیل کنارے لوگ

پہلے تم کو مجھ سے چھینا پھر پُرسہ دینے
میرے گھر پر آئے مِل کر شہر کے سارے لوگ

یہیں تو قتل ہوا تھا مری محبت کا
میں ایسے شہر کو آخر معاف کیسے کروں

تمام شہر محبت کے حق میں بولتا ہے
ہمارے بعد ہوئی ہے یہ رسم عام یہاں

روز اِک خواب جلا دیتا ہے آنکھیں میری
نیند آتی ہی نہیں راس ، جگا دیتا ہے

مُضطرب سا رہتا ہے مجھ سے بات کرتے وقت
پھیر کر کلائی کو بار بار دیکھے وقت

یہ اور اس طرح کے درجنوں اشعار "خواب زار” میں ہمیں مل جاتے ہیں، جو شعری اعتبار بخشنے کے لئے بہت کافی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( اکتوبر ۱۹۹۸ء)

Related posts

Leave a Comment