صاحبِ گداز: حسین امجد ۔۔۔ فائق ترابی

صاحبِ گداز حسین امجد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں

حسرت کا یہ تصورِ شعر آج کے تجرباتی ادبی رویوں کی موجودگی میں بھی شاعروں کے ایک مخصوص قبیلے کی رگوں میں خون کی مانند گردش کرتا ہے- جنہیں اپنے ضمیر کی آواز کی ترسیل کےلیے کسی بناوٹی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی- اُن کا تصور کسی انفرادی پیمانے اور پیرائے کا اسیر نہیں ہوتا- یہی ان کا انفراد ہوتا ہے-
حسین امجد کی نسبت شعرا کے اُسی خانوادے سے ہے جو دل کی بات دل سے کرتے ہیں اور دل والوں کے دل میں اُتار دیتے ہیں-
حسین امجد وفورِ جذبات سے لبریز پیمانہِ دل لے کر آئے لیکن ان کی ساقی گَری میں کمال ہے- بقدرِ ظرف رند کو نوازتے ہیں- یہی ہنر اُن کے لہجے میں ٹھہراؤ لاتا ہے- کبھی کبھی ناصر کاظمی کی سرگوشی اُن کے مصرعوں سے اُبھرتی ہے جو رات کے پچھلے پہر دھیان کی سیڑھیاں اُترتی ہوئی دروازہِ دل پہ دستک دیتی ہے:

کوبکو چل رہی ہے پروائی
دل ہوا قرب کا تمنائی
شب کے پچھلے پہر میں آخرِ کار
ٹوٹ کر مجھ کو تیری یاد آئی
کس نے دیکھا ہجوم بڑھتا ہوا
کس نے دیکھی ہے صرف تنہائی
کب مرا دل کھلا کنول کی طرح
کب ہوئی جھیل سے شناسائی

خیال کے رخشِ سر مست کو اُسلوب کی مہار ڈال کر اپنی مرضی سے ہمراہ کرنا حسین امجد کا شعری نصب العین مرتب کرتا ہے-

لفظ سو بار تولتا ہوا مَیں
ایسا محتاط بولتا ہوا مَیں

اسی محتاط لہجے میں وہ سرورِ کونین کی بارگاہ میں جاتے ہیں، انکسار میں لپٹی بُکا اُن کے شعر میں تاثیر کی مہک اُتار دیتی ہے- جو اس بُکا کو سننے والے کی آنکھوں کے ساحلوں کو نمی کی نوید دیتی ہے:

حضور آپ کا منگتا ہوں مَیں حسین امجد
حضور کیا میں اٹھا لوں مدینہ شہر کی خاک؟

اُنہیں اپنے فن پر ناز نہیں- یہی کسرِ نفسی اُن کے بعض شعروں کو اعجاز بنا دیتی ہے- جو روح کے تار چھیڑ دیا کرتے ہیں- ہم صوفیانہ دھن پر بہتے ہوئے شعر کے ساتھ سفر کرنے لگتے ہیں- جو سفر کہیں مدینہ جا کر ختم ہوتا ہے، کہیں نجف اور کہیں دشتِ نینوا:

کس طرح شاہِ شہیداں کا مَیں نوحہ لکھوں
کس طرح حشر کو اک شعر میں ڈھالا جائے

تین نوکوں کا تیر چھید گیا
ایک معصوم کا گَلا، گریہ!

حسین امجد ماضی کے خوش نما دیار میں اپنے رفتگاں کے ساتھ محوِ سفر رہتے ہیں- اُنہیں یاد کے دھندلے پردے پر کئی تصویریں نظر آتی ہیں، جو کہیں کہیں تو صرف سایہ معلوم ہوتی ہیں اور کہیں سات رنگوں میں نمایاں ہو کر حرف کے سہارے قرطاس کو گُلزار بنا دیتی ہیں-
امجد روایت پسند ہیں- نئے دور میں پرانی اقدار کی شکست و ریخت اُنہیں دکھی کرتی ہے – وہ رگوں میں دوڑتے لہو کو سفید ہوتا دیکھ کر افسردہ حالی میں فریاد کُناں ہوتے ہیں – اس کےلیے اُن کے لہجے کی وارفتگی تاثیر کی نوید بن جاتی ہے-

اِک قبیلہ آکے ٹھہرا تھا یہاں
پھر قبیلے ہی قبیلے ہو گئے

امجد ہماری زیست کسی کام کی نہیں
ہم سے ہمارے دوست اگر بدگماں رہے

بعد مدت کے اُس نے خط لکھا
اور اس خط میں میرا نام نہیں

خوشبو کو قید نہیں کیا جاسکتا، خوشبو اَمن و سکون، محبت اور آزادی کا استعارہ ہے لیکن بد امنی کی بُو نے خوشبو کی دل آویز قبا کو داغ دار کر دیا:

میں نے دہشت زدہ چمن دیکھا
میں نے دیکھی ہے بے اماں خوشبو

صحنِ گل اس لیے ہے افسردہ
پنکھڑی پھول سے جدا ہوئی ہے

بعض روایتی مضامین کا آج کے دور میں بھی اطلاق ہوتا ہے – چوں کہ زخم پرانے ہیں لیکن تازہ چوٹ نے آج کے دور میں بھی وہی زخم دوبارہ سلگا دیے ہیں – امجد کے دل کے داغ سلگنے لگتے ہیں:

سارے اخبار پڑھ کے دیکھ لیے
سارے اخبار جھوٹ بولتے ہیں

ہجومِ شہر سے اکتا گیا ہوں
مرے جینے کو تنہائی بہت ہے

جسے حکم دینے کی عادت پڑی ہو
کرے کیسے منت سماجت ہماری

جس بات پہ سب لوگ بہت دیر ہنسے تھے
وہ بات ابھی میں نے بتائی تو نہیں ہے

لیکن حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا بھی شعور مندی کا اشاریہ ہوا کرتا ہے:

بارشیں اب یہاں نہیں ہوتیں
دھوپ ہے، دھوپ سے نہاتے ہیں

امجد نے نئے، پرانے کے بے معنی امتیازات سے بالاتر ہو کر شاعری کی- خالص جذبات کی بازگشت سنائی دیتی ہے – سماعت پر بار بننے والی آواز نہیں، بلکہ کانوں میں رَس گھولنے والا اَلاپ ہے- اس میں حسین امجد کی موسیقیت کو بہت دخل ہے- امجد کا مزاج موسیقی سے گہرا انسلاک رکھتا ہے – اسی باعث امجد کا حرف حرف آسان اور میٹھی زبان بولتا ہے- حسین امجد کےلیے سلاست، روانی، سہلِ ممتنع جیسی مشکلات کو سَر کرنا اسی موسیقیت کے سہارے ممکن ہوا- مومن نے کہا تھا:

اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

حسین امجد دھیمے سُروں کو چھیڑتے چھیڑتے ایسی فضا مرتب کرتے ہیں ، جس کے کرہ سے نکلنا یکسر ناممکن معلوم ہوا کرتا ہے –

رُخ پہ آنچل سنوارا گیا
روح تک اک نظارا گیا
زلف جب بھی پریشاں ہوئی
اس کا صدقہ اتارا گیا
میں نے تجھ پر بھروسا کیا
میں محبت میں مارا گیا

نت نئی خواہشوں میں زندہ ہے
دل مرا موسمی پرندہ ہے

اُسے میں ورغلا سکتا ہوں امجد
مگر ایسے میں رسوائی بہت ہے

حسین امجد کو اپنی روایت پسندی کا ادراک بھی ہے- لیکن صرف روایت پسند ہی نہیں بلکہ جدید خطوط پر سفر اختیار کرنے کےلیے پُر امید بھی ہیں:

یہاں اپنا بچپن گزارا تھا ہم نے
یہی اب تلک ہے سکونت ہماری

اپنی فرسودہ روایات بدلنا ہوں گی
ورنہ فرسودہ روایات سے مر جاؤں گا

آج میں بھی خرید لاتا ہوں
پھول تازہ کہاں سے ملتے ہیں

لیکن تخلیقی عمل کی دشواریاں کبھی کبھی پاؤں سے آبلوں کی صورت لپٹ لپٹ جایا کرتی ہیں اور کہیں کہیں تخلیقی وفور کے آگے، لفظ کا تنگنایہ شرمسار سا کر دیتا ہے:

شرم سے اور مَیں سمٹ جاؤں
جیسے جیسے قریب آئے غزل

رنگے ہاتھوں نہ پکڑا جاؤں کہیں
قفل شعروں سے کھولتا ہوا مَیں

اک اذیت میں مبتلا ہی رہا
کب مجھے درد سے شفا ہوئی ہے

حسین امجد، شاعری کی رہ گذر پر سفر کرتے ہوئے گداز آشنا ہوئے- یہی گداز وہ زادِ راہ ہے جو کئی دیگر منازل کی بشارت کے نغمے سناتا ہے-

Related posts

Leave a Comment